امام كے پيچھے سورۀ فاتحه پڑھنے كا حكم

دليل وجوب قراءة الفاتحة خلف الإمام:
v  حديث: ((لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب)) متفق عليه 
ترجمه:  جس نے سورۀ فاتحه نهيں پڑھي، اس كي نماز نهيں هوئي۔ (نماز خواه منفرد كي هو، امام كي هو، مقتدي كي هو، فرض هو يا سنن ونوافل ميں سے هو۔ كيوں كه يه حديث عام هے۔
v  حديث: ((لعلكم تقرؤون خلف إمامكم قالوا: نعم، قال: لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها))  رواه أحمد وأبو داود وابن حبان بإسناد حسن
ترجمه: نبي ﷺ نے دريافت فرمايا كه: شايد تم اپنے امام كے پيچھے قراءت كرتے هو؟!  لوگوں نے جواب ديا كه هاں! آپ ﷺ نے فرمايا: ايسا مت كرو٬ سوائے سورۀ فاتحه كے۔ كيوں كه جس نے اسے نهيں پڑھي٬ اس كي نماز هي نهيں هوئي۔
v  حديث: ((مَن صلَّى صلاة، لم يَقرأ فيها بأم القرآن فهى خِدَاجٌ - ثلاثاً - غيرُ تمام)) فقيل لأبى هريرة: "إنا نكون وراء الإمام؟". فقال: "اقرأْ بها في نفسِكَ؛ فإني سمعت.... أخرجه مسلم في صحيحه.
ترجمه: جس نے ايسي نماز پڑھي جس ميں سورۀ فاتحه كو نهيں پڑھا۔ تو اس كي وه نماز  ناقص هے۔ (ناقص هے٬ ناقص هے٬ ناقص هے) تين بار فرمايا۔ يعني وه نماز غير مكمل هے۔ تو حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے كها گيا كه: كبھي هم امام كے پيچھے هوتے هيں٬ تو پھر كيا كريں؟!  تو حضرت ابو ھريره رضي الله عنه نے جواب ديا كه: تم اپنے دل ميں اسے پڑھ لو۔
v  حديث: ((كُنَّا خَلْف رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر، فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فثقُلَتْ عليه القراءةُ، فلما فرغ قال: "لعلكم تقرؤون خَلْف إمامكم؟" قلنا: "نعم يا رسول الله"، قال: "لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب؛ فإنه لا صلاة لمَن لم يقرأ بها)) رواه أحمد وأبو داود والنسائي وابن حبان وصححه البخاري.
ترجمه:  ايك مرتبه فجر كي نماز ميں هم رسول الله  ﷺ كے پيچھے تھے۔ تو جب آپ ﷺ نے قرأءت كي٬ تو آپ كو قراءت ميں دشواري هوئي۔ پھر جب فارغ هوئے٬ تو آپ ﷺ لوگوں سے سوال فرمايا كه: شايد تم اپنے امام كے پيچھے قراءت كرتے هو؟! تو هم نے كها كه هاں يا رسول الله! تو آپ ﷺ نے فرمايا: سورۀ فاتحه كے سوا كچھ نه پڑھا كرو۔ كيوں كه جس نے سورۀ فاتحه نهيں پڑھي٬ اس كي نماز هي نهيں هوئي۔
وفي لفظ: "فلا تقرؤوا من القرآن إذا جهرتُ به إلا بأمِّ القرآن" 
ترجمه:  اور ايك روايت كے الفاظ يه هيں كه: جب ميں جهري قراءت كروں٬ تو تم ميرے پيچھے قرآن ميں سے سوائے سورۀ فاتحه كے كچھ نه پڑھا كرو۔
v  حديث: ((لا يَقرَأنَّ أحدٌ منكم شيئاً من القرآن إذا جهرتُ بالقراءة إلا بأمِّ القرآن)) رواه الدار قطني، وقال: رجاله كلهم ثقات؛ 
ترجمه: جب ميں نماز ميں جهري قراءت كروں٬ تو تم ميں سے كوئي قرآن ميں سے كچھ بھي نه پڑھے۔ سوائے سورۀ فاتحه كے۔

دليل عدم الوجوب:
v  حديث: ((إنما جعل الإمام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه، فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا)) رواه مسلم في صحيحه، (عام يخصصه تخصيص الفاتحة)
جواب: اس حديث ميں مطلقا نماز ميں امام كي قراءت كو انصات اور خاموشي كے ساتھ سننے كا حكم ديا گيا هے۔ جب كه سورۀ فاتحه پڑھنے كے وجوب پر دلالت كرنے والا حكم سورۀ فاتحه كے ساتھ مقيد هے۔ لهذا جب سورۀ فاتحه پڑھ لينے كے بعد انصات اور خاموشي سے امام كي قراءت كو سنيں گے٬ تو دونوں حكم پر عمل هو جائے گا۔ بر خلاف كسي ايك پر عمل كرنے اور دوسرے كو ترك كر دينے كے۔ يهي دونوں حكم ميں جمع كي صورت بھي هے۔ اور شريعت كا اصول هے٬ كه جب بظاهر متضاد دو حكم كے درميان جمع كرناممكن هو٬ اس حيثيت سے كه دونوں پر عمل هو جائے٬ تو ايسا كرنا واجب هے۔ جب كه سورۀ فاتحه نه پڑھنے كي صورت ميں اس حديث پر تو عمل هو گيا۔ مگر پڑھنے كي تاكيد والي حديثيں چھوٹ گئيں۔ علاوه ازيں نماز ميں امام كے قراءت كے دوران انصات اور خاموشي كے ساتھ اس كي قراءت سننے كا يه حكم عام هے۔ جس سے سورۀ فاتحه كو مستثنى اور خاص كيا گيا هے۔ اس لئے دونوں حكم ميں تضاد هرگز نهيں هے۔ بلكه يه مطلق و مقيد اور عام وخاص كا مسئله هے۔
v  حديث: ))مَن كان له إمامٌ فقراءةُ الإمام له قراءةٌ))  رواه أحمد وابن ماجه عن جابر. ضعيف لا يحتج به.
جواب: يه روايت ضعيف هے۔ جو كه قابل احتجاج هرگز نهيں۔ علاوه ازيں٬ بالفرض مان بھي ليں۔ تو يه بھي وهي بات هے٬ جو اس سے اوپر والي روايت ميں هے۔
آيت: ((وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ، وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ))  الأعراف: 4 – 5
جواب: اس ميں كئي باتيں هيں:
-         كچھ لوگوں نے اسے جمعه كے خطبه كے بارے مانا هے۔ كچھ نے اسے نماز هي كے بارے مانا هے۔
-         اگر يه نماز هي كے بارے ميں هے٬ تو يه بھي مطلق حكم هے۔ اور گزشته حديثوں نے سورۀ فاتحه كو مقيد اورمستثنى كر ديا۔
-          اگلي آيت ميں اپنے نفس كے اندر دل هي دل ميں غير جهري جس ذكر كي بات آئي هے٬ غالبا حضرت ابو ھريره رضي الله عنه نے اسي كي طرف اشاره كيا هے۔ كه امام كي قراءت كے دوران خاموشي كے ساتھ سنو۔ مگر تم غافلوں ميں سے مت بن جاؤ٬ بلكه اپنے حصے كے سورۀ فاتحه كو دل هي دل ميں غير جهري پڑھ لو۔

الراجح والصواب:
خاموشي سے امام كي قراءت سننا مطلق اور عام حكم هے۔ جب كه سورۀ فاتحه كو پڑھنا مقيد اور خاص ومستثنى هے۔ اس لئے سورۀ فاتحه كے وجوبا پڑھنے كا حكم هي راجح هے۔ كيوں كه دونوں حكم ثابت هيں۔ اور منسوخ هونے كي بھي كوئي دليل نهيں هے۔ لهذا دونوں پر عمل هونا ضروري هے۔ اور اس كے لئے ايك هي صورت هے۔ كه حديث وجوب پر عمل كرتے هوئےسورۀ فاتحه پڑھ لي جائے۔ پھر آيت انصات پر باقي كي قراءت ميں عمل كيا جائے۔
حضرت ابو هريره رضي الله عنه راوي حديث هيں۔ اور انھيں اس كے متن كي اچھي طرح سمجھ تھي۔ اسي لئے مقتدي كے بارےسوال كرنے والے كو جواب ديا كه اپنے نفس كے اندر دل هي دل ميں سورۀ فاتحه كو پڑھ لو۔ سائل نے يه سمجھا تھا٬ كه شايد يه حكم امام يا منفرد كے لئے هے۔ تو ابو هريره نے اس كا رد كيا۔ نيز صراحة گزشته روايتوں سے يه بات بھي واضح هو گئي هے٬ كه نبي صلى الله عليه وسلم نے اپنے پيچھے مقتديوں كو جهري قراءت كے دوران انصات كرنے اور خاموشي سے امام كي قراءت كو سننے كا حكم ديا هے۔ اور ساتھ هي يه بھي كهه ديا هے كه سورۀ فاتحه كو پڑھ لينے كے بعد انصات كرو۔ كيوں كه سورۀ فاتحه نه پڑھنے والے كي نماز هي نهيں هوتي۔
جب كسي دو حكم كے درميان بظاهر تضاد محسوس هو۔ اور ناسخ ومنسوخ كي كوئي دليل نه هو٬ مگر دونوں پر عمل كرنا ممكن هو۔ تو ان ميں سے كسي ايك حكم كو ترك كرنا جائز نهيں۔ لهذا  جهري هو يا سري نماز ميں امام كے پيچھےسورۀ فاتحه كے پڑھنے كا قول هي راجح اور صواب هے۔
والله أعلم وعلمه أتم وأحكم
اعداد وتقديم:
عبد الله الكافي المحمدي
خريج الجامعه الاسلاميه بالمدينه المنوره

داعيه ومترجم شعبۀ جاليات تيماء دعوه سينٹر سعودي عرب