عشرۀ ذي الحجه وايام تشريق
مقدمہ
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين أما بعد
الله سبحانه وتعالى ايك اكيلا پوري كائنات كا خالق ومالك اور مدبر هے۔ شجر وحجر، بحر وبر، زمان ومكان، زمين وآسمان، اور اس كائنات ميں موجود مرئي وغير مرئي ساري مخلوقات كو بغير كسي شريك كار، معين ومددگار محض اپنےفضل وكرم اور قضاء وقدر سے پيدا فرمايا۔ اور ان ميں سے بعض كو بعض پر فضيلت عطا كي۔ مكانوں ميں روئے زمين پر سب سے افضل مكه مكرمه كو قرار ديا۔ جيسا كه آسمانوں ميں بيت المعمور كو افضليت حاصل هے۔ اور زمانوں ميں ماه رمضان المبارك كو سارے مهينوں پر فضيلت بخشي۔ چوں كه وهي ان سب كا خالق اور انھيں يه فضيلتيں عطا كرنے والاهے۔ لهذا وهي ان فضيلتوں كے اسباب كا جاننے والا اور اس كے شايان شان مناسب اعمال كا جاننے والا هے۔ ان ميں سے جس كا تعلق بھي بندوں كے صلاح وفلاح سے هے۔ اس كے بارے ميں ضرور بيان كر ديا هے۔ جيسے مكانوں ميں سے مكه كي فضيلت كا سبب خانۀ كعبه كا وجود هے۔ اور اس كے شايان شان عمل خانۀ كعبه كا طواف اور اس كا حج هے۔ زمانوں ميں ماه رمضان المبارك كي فضيلت كا سبب اس ميں قرآن كا نزول اور ليلة القدر كا وقوع هے۔ اور اس كے شايان شان عمل اس ميں صيام وقيام، ذكرو تلاوت دعاء اور اعتكاف واستغفار هے۔
بعض اوقات فاضله
افضل مهينه: مهينوں ميں ماه رمضان المبارك كي فضيلت هے۔ الله تعالى نے فرمايا: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ﴾ (سورة البقرة: 185) ترجمه معاني: ماه رمضان وه ہے، جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے ۔ اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔
افضل عشره: هفته يا عشره ميں رمضان المبارك كے آخري عشرے كي فضيلت هے۔ كيوں كه ليلة القدر كے وقوع كا زياده امكان اسي عشرے ميں هوتا هے۔ حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتي هيں: ( كان إذا دخل العشر أحيا الليل وأيقظ أهله وشد مئزره) (متفق عليه) جب (رمضان كا آخري) عشره داخل هو جاتا۔ تو رسول الله ﷺشب بيداري كرتے۔ اپنے اهل كو بھي جگاتے، اور كمر بسته هو جاتے۔
افضل دن: دنوں ميں عرفه كا دن افضل ترين دن هے۔ حضرت جابر رضي الله عنه سے روايت هے كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: (ما من يوم أفضل عند الله من يوم عرفة) (مسند ابو يعلى) الله كے نزديك يوم عرفه سے بهتر كوئي دن نهيں هے۔ جمعه كا دن بھي افضل ترين دنوں ميں سے هے۔ نبي ﷺ كا ارشاد هے: (خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة) (صحيح مسلم) سورج جس سب سے بهترين دن ميں طلوع هوا هے، وه جمعه كا دن هے۔ حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے كه نبي ﷺ نے فرمايا: كه "اليوم الموعود" قيامت كا دن هے۔ "اليوم المشهود" يوم عرفه، اور "الشاهد" جمعه كا دن هے۔ (سنن الترمذي وحسنه الالباني رحمهما الله) نيز الله تعالى كا ارشاد هے: ﴿وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ (سورة الفجر: ٣) ترجمه معاني: اور (قسم هے) جفت اور طاق کی۔ حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے مروي هے كه "الوتر" يوم عرفه، اور "الشفع" يوم الاضحى هے۔ عكرمه اور ضحاك رحمهما الله بھي اسي كے قائل هيں۔
افضل رات: راتوں ميں ليلة القدر كي فضيلت معروف هے۔ الله تعالى كا ارشاد هے: ﴿لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴾ (سورة القدر: ٣) ترجمه معاني: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
افضل لمحه: جمعه كے دن ايك ايسا لمحه هے۔ جس ميں دعاؤں كي قبوليت كا امكان بهت زياده رهتا هے۔ حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے جمعه كے دن كا ذكر كيا تو بيان فرمايا: (فيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلى يسأل الله تعالى شيئا إلا أعطاه إياه"وأشار بيده يقللها) (متفق عليه) كه اس (دن) ميں ايك لمحه هے۔ كوئي بھي مسلم بنده كھڑے هو كر نماز پڑھتے هوئے الله تعالى سے كچھ مانگے۔ اور اس (لمحے) سے موافق هوجائے۔ تو اسے وه ضرور عطا كرے گا۔ اور اپنے هاتھ سے اشاره كيا۔ اس (لمحے) كي قلت كو واضح كر رهے تھے۔ نيز ثلث ليل كے بارے ميں الله تعالى كا ارشاد هے: ﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ (سورة السجدة: ١٦) ترجمه معاني: ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے، وه خرچ کرتے ہیں۔ نيز مؤمنين كے صفات بيان كرتے هوئے الله تعالى نے فرمايا: ﴿كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾ (سورة الذاريات: ١٧) ترجمه معاني: وه رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔
ان فضيلتوں كو اور ان كے اسباب اور ان ميں مناسب اعمال كو صرف وهي جانتا هے۔ كيوں كه وهي ان سب كا خالق هے۔ اور ان سب كے ظاهر وباطن اور ان كے حقائق سے آگاه هے۔ لهذا ان لمحات ميں كون سا عمل ان كے شايان شان هے۔ اس كے مطابق اوامر ونواهي كا حق بھي صرف اسي كا هے۔ الله تعالى كسي بھي مخلوق كو اس ميں دخل اندازي كي اجازت هرگز نهيں ديتا۔ كيوں كه يه تشريعي امور هيں۔ اور تشريع ايك اكيلا محض الله كا حق هے۔
جن ايام ولمحات كي كوئي فضيلت هے۔ تو اس كي فضيلت، اس كے اسباب اور اس كے مناسب اعمال كو خود اللہ تعالے اور اس کے رسول ﷺنے بیان کئے ہیں۔ اگر ان لمحوں میں انھیں اعمال کو انجام دیا گیا۔ جن كا حكم الله سبحانه يا اس كے رسول ﷺ نے ديا هے۔ تو ان کی فضیلتوں اور اضافی اجر کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر اس کی رعایت نہ کی گئی۔ تو عمل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ جیسے یوم النحر میں روزہ رکھ لینا بجائے اجر کے حبط عمل کا موجب ہے۔ جب کہ اس دن قربانی کی بڑی فضیلتیں وارد ہیں۔
بدعت كا مفهوم اور اس كا حكم
هر نئي چيز كو بدعت كها جاتا هے۔ مگر شريعت ميں بدعت كي مختلف شكليں هيں۔ جو اعتقاد ، قول اور عمل ميں پائي جاتي هيں۔ اعتقاد ميں بدعت جيسے قدريه خوارج جهميه معتزله وغيره كا عقيده هے۔ اور قول ميں بدعت جيسے بعض متكلمين وفلاسفه كے اقوال هيں۔ اسي طرح بعض اوراد و اذكار بدعيه بھي هيں۔ ليكن اس كي كثرت عبادتوں ميں ديكھي جاتي هے۔ بدعت اپني تمام شكلوں كے ساتھ بد ترين حرام ميں سے هے۔ حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه سے روايت هے كه نبي صلى الله عليه وسلم اپنے خطبه ميں فرماتے تھے: (إن أصدق الحديث كتاب الله، وأحسن الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار) (النسائي 3/188) بے شك سب سے سچا كلام الله كي كتاب هے۔ اور بهترين هدايت محمد (ﷺ) كي رهنمائي هے۔ اور سب سے بد ترين چيز دين ميں نئي باتيں هيں۔ اور هر نئي بات بدعت هے۔ اور هر بدعت گمراهي هے۔ اور هر گمراهي جهنم ميں لے جانے والي هے۔ اسي طرح حضرت عرباض بن سارية رضي الله عنه سے روايت هے كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: (وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة) (أبو داود) خبر دار! بچو دين ميں نئي باتوں سے۔ كيوں كه هر نئي بات بدعت هے۔ اور هر بدعت گمراهي هے۔
بدعت كي تقسيم حسنه وسيئه
مذكوره دونوں روايتوں ميں رسول الله ﷺ نے فرمايا: "كل بدعة ضلالة" كه دين ميں هر نئي چيز بدعت هے۔ اور هر بدعت گمراهي هے۔ لهذا بدعت كو دو قسموں "بدعت حسنه" و "بدعت سيئه" ميں تقسيم كرنا غلط هے۔ كيوں كه بدعت كوئي بھي حسنه يا اچھي نهيں هو سكتي۔ هر قسم كي بدعت گمراهي هے۔ حضرت عمر رضي الله عنه نے تراويح كي جماعت كے بارے ميں جو كها تھا: "نعم البدعة هذه" (صحيح البخاري عن عبد الرحمن بن عبد القارئ) تو ان كا مقصد لغوي بدعت تھا۔ يعني يه اچھي شروعات هے۔ كيوں كه اس جماعت كي اصل رسول الله ﷺ سے ثابت هے۔ تو حضرت عمر رضي الله عنه اس كو شرعي بدعت كيسے كهه سكتے هيں۔
عبادت ميں بدعت
عبادت ميں بدعت دو قسم كے هوتے هيں:
(1) ديني امور ميں كوئي عمل جو سرے سے نيا هو۔
ديني امور كا مطلب يه هے كه اس عمل سے ثواب كي نيت كي جائے۔ اور دين كا كام سمجھ كر انجام ديا جائے۔ جب كه اس عمل كا وجود رسول الله ﷺ كے زمانے ميں نهيں تھا۔ تو يه خالص بدعت هے۔ دين ميں اس كي گنجائش هر گز نهيں هے۔ حضرت عائشه رضي الله عنها بيان كرتي هيں كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: (من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد) (صحيح مسلم) كه جس نے كوئي ايسا عمل كيا، جو همارے دين ميں نهيں هے۔ تو وه كام قابل ردهے۔ كيوں كه رسول الله ﷺ كي زندگي ميں هي دين مكمل هو چكا هے۔ الله تعالى نے فرمايا: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ﴾ (سورة المائدة: ٣) ترجمه معاني: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا۔ اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا۔ اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ لهذا اب دين ميں اضافے كي كوئي گنجائش نهيں هے۔ جيسے قبروں پر چله كشي كرنا۔ اس عمل كو ثواب كي نيت سے اور دين كا كام سمجھ كر كيا جاتا هے۔ جب كه رسول الله ﷺ كے زمانے ميں اس عمل كا وجود نهيں تھا۔ لهذا يه عمل بدعت اور لائق رد هے۔
البته اگر دين كے بجائے كوئي دنياوي عمل هے۔ مثلا كھانا پينا، پهننا اوڑھنا، لين دين، خريد فروخت وغيره۔ تو اس باب ميں سوائے چند بنيادي اصول وقواعد كے اصل ابا حت هے۔ لهذا جهاں تك ممانعت نه هو، اور كسي شرعي ضابطے سے متعارض نه هوتا هو، وهاں تك اختيار هے۔ حضرت انس رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: (أنتم أعلم بأمور دنياكم) (صحيح مسلم، صحيح ابن خزيمة، صحيح ابن حبان) كه تم اپنے دنياوي معاملات ميں (اپني مصلحتوں اور مرضي كے بارے ميں) زياده جانتے هو۔ يعني گھر كيسا بنانا هے۔ كھيتي كس چيز كي كرني هے۔ كپڑا كس رنگ كا پهننا هے۔ اس پر تم آزاد هو۔ مگر اس ميں بھي چند اصول هيں جن كي رعايت كرني ضروري هے۔
برياني اور كولڈ ڈرنك چوں كه شرعي ضابطوں كے خلاف نهيں هيں۔ لهذا ثواب كي نيت كئے بغير ان كے كھانے پينے ميں كوئي حرج نهيں هے۔ هاں اگر دين كا كام سمجھ كر يا ثواب كي نيت سے كوئي برياني كھائے، يه سوچ كر كه برياني سنت هے۔ يا اس كے كھانے سے ثواب ملے گا۔ تو يقينا يه بدعت هے۔
واضح رهے كه برياني كھانے ميں اگر مسنون طريقه اور شرعي آداب كا خيال ركھا جائے۔ تو مسنون طريقه پر عمل هونے كي وجه سے ثواب ملے گا۔ نه كه برياني كي وجه سے۔ اگر كوئي ايسي چيز كھائي يا پي جائے جو چيز مسنون هو، تو اس كا ثواب الگ هوگا۔ جيسے كوئي مسنون طريقے پر زمزم پيئے۔ تو چوں كه زمزم پينا سنت هے۔ اس لئے اس سنت كا بھي ثواب ملا۔ اور مسنون طريقه سے پيا تو اس سنت كا الگ سے ثواب ملا۔ جب كه برياني سنت نه هونے كي وجه سے اس كا ثواب نهيں ملا۔ البته مسنون طريقه پر پينے كي وجه سے ثواب كا حق دار بنا۔ اور برياني دين كا عمل نهيں بلكه دنياوي عمل هے۔ اس لئے وه بدعت كے زمرے ميں بھي نهيں آئے گا۔
(2) كوئي عمل جس كي اصل دين ميں موجود هے، مگر اس كا طريقه نيا هو۔
دين كا اصل تو يه هے كه حكم الله كا هو۔ اور طريقه محمد رسول الله ﷺ كا۔ كسي بھي عمل كے صالح هونے كے لئے الله كا حكم هونا ضروري هے۔ كيوں كه اوامر ونواهي تشريع هے۔ جو كه خالص الله كا حق هے۔ اور يهي الله كي الوهيت پر ايمان كا تقاضه هے۔ لهذا اپني طرف سے كوئي اوامر ونواهي پيدا نه كرو۔ اگر الله كا حكم هے۔ تو اس كے كرنے كا طريقه رسول الله ﷺ سے لينا ضروري هے۔ كيوں كه يهي آپ ﷺ پر بحيثيت نبي ايمان لانے كا تقاضه هے۔ اور طريقه سيكھانے كے لئے هي الله نے آپ كو مبعوث فرمايا۔ الله تعالى كا ارشاد هے: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا﴾ (سورة الأحزاب: ٢١) ترجمه معاني: یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے۔ اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔ نيز فرمايا: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ (سورة آل عمران: ٣١) ترجمه معاني: کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
لهذا دين ميں اگر عمل نيا هوگا، تو بھي بدعت هے۔ اور طريقه نيا هوگا، تو بھي بدعت هے۔ اور طريقه ميں بدعت هونے كا مطلب يه هے كه اصل عمل تو ثابت هے۔ جس پر چھ اصولوں ميں سے كسي ايك يا زياده كي مخالفت كي گئي هوگي۔ جو كه ثابت شده عمل كو بھي بدعت بنا ديتي هے۔
(1) سبب : شريعت نے اس عمل كے لئے جو سبب بتائي هے۔ يا كوئي سبب نهيں بتائي۔ مگر اپني طرف سےكوئي سبب بنا لينا۔ جيسے عاشوراء محرم كے روزه كا سبب رسول الله ﷺ نے حضرت موسى عليه السلام كي نجات اور فرعون كي هلاكت كو قرار ديا۔ اور يه سنت هے۔ اس پر كوئي حضرت حسين رضي الله عنه كي شهادت كو سبب مان كر عاشوراء محرم كا روزه ركھے۔ تو يه بدعت بن جائے گا۔
(2) جنس: جو عمل شرع ميں ثابت هے۔ اسي كو بجا لانا هے۔ اگر اس عمل كے جنس كو بدل ديا گيا تو وه بدعت بن جائے گا۔ جيسے يوم اضحى كے دن رسول الله ﷺ كي سنت قرباني كرنا هے۔ كوئي شخص قرباني نه كر كے قرباني كي قيمت كو فقراء ميں تقسيم كر دے۔ تو يه بدعت هے۔ كيوں كه اس عمل كا جنس بدل گيا۔
(3) قدر: كسي عمل كي مقدار يا عدد اپني طرف سے متعين كرنا۔ جس كا ثبوت شريعت ميں نهيں هے۔ يا جو شريعت ميں متعين هے۔ اس ميں كمي زيادتي كرنا۔ خواه وه عمل ديكھنے سننے ميں كتنا هي اچھا كيوں نه هو۔ جيسے مغرب كي نماز تين ركعت كے بجائے جان بوجھ كر چار ركعت پڑھ لينا۔ يا سوره يس اكياون بار پڑھنا۔ يا كوئي مخصوص آيت ايك سو ايك بار پڑھنا۔ جب كه اس كي دليل نهيں هے۔
(4) كيفيت: جس عمل كي جو كيفيت اور طور طريقه ترتيب وغيره شريعت نے بيان كيا هے۔ يا كوئي خاص كيفيت نهيں دي هے۔ اس سے قطع نظر اپني طرف سے كوئي كيفيت متعين كر لينا۔ مثلا وضوء يا نماز كي كيفيت اور طور طريقے جو ثابت هيں اس سے الگ كيفيت متعين كر كے ادا كرنا۔
(5) زمان: شريعت نے كسي عمل كے لئے كوئي دن يا وقت متعين نهيں كيا۔ اس پر اپني طرف سے كوئي دن يا وقت كا تعين كرنا۔ يا شريعت نے جو دن يا وقت متعين كيا هے۔ اس كي مخالفت كرنا۔ جيسے مخصوص دن يا وقت متعين كر كے اسي ميں آية الكرسي يا كوئي سورت پڑھنا۔
(6) مكان: جس عمل كے لئے شريعت نے كوئي جگه متعين نهيں كي۔ اس كے لئے اپني طرف سے جگه متعين كرنا۔ يا شريعت نے متعين كي هے۔ اس كي مخالفت كرنا۔ جيسے قرآن كي تلاوت كے لئے كسي قبرستان يا قرباني كے لئے كسي درگاه كا تعين كرنا۔
فضائل عشر ذی الحجہ
اسلامی سال کا آخری مہینہ ذو الحجہ هے۔ جو کہ شہر الحج بھی كهلاتا ہے۔ اس کی فضیلت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالے کا ارشاد ہے : ﴿وَالْفَجْرِ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ﴾ (سورة الفجر: ۱ ، ۲ ) ترجمه معاني: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی۔ راتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر یہ فضیلت ان راتوں کے دنوں میں بھی موجود ہے۔ جیسا کہ اس کی تصریح مختلف روایتوں میں ملتی ہے۔
امام ابن کثیر ؒ نے تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ... ان دس راتوں سے مراد عشر ذی الحجہ ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ اور اس کی روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔(تفسیر ابن كثير)
نیز اللہ تعالے کا فرمان ہے : ﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ﴾ [سورة الحج: ۸۲] ترجمه معاني: اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ معلوم دن ذي الحجہ كے دس ايام ہیں ( تفسیر ابن كثير)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالے عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : [ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب ِإلى الله من هذه الأيام العشر، قالوا ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال ولا الجهاد في سبيل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء] (رواہ البخاری) عشر ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں، جس میں اللہ تعالے کو عمل صالح اتنا زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہ ہی اللہ کے راستے میں جہاد، سوائے اس آدمی کے، جو اپنے نفس اور اپنے مال کے ساتھ ( اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے ) نکلا، اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہیں آیا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: [ما من أيام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد] ( رواہ احمد )
ان ( عشر ذی الحجہ ) کے سوا کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل اللہ سبحانہ کے نزدیک اتنا زیادہ عظیم اور اتنا زیادہ محبوب ہو۔ اس لئے ان میں زیادہ سے زیادہ تہلیل تکبیر اور تحمید کیا کرو ۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر ذوالحجہ کے امتیاز کا سبب یہ ہے کہ اس مہینے میںامہات العبادات جمع ہو گئے ہیں، اور وہ نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ہیں، جو ذی الحجہ کے علاوہ باقی کسی دوسرے مہینے میںایک ساتھ جمع نہیں ہوتے ( دیکھئے فتح الباری )
عشر ذي الحجه کے اعمال
نماز
فرائض کا شدت سے با جماعت اہتمام کرنا، مسجدوں میں جلدی پہونچنا، سنتوں کو پابندی سے ادا کرنا اور نوافل وغیرہ کثرت سے پڑھنا۔ کیوں کہ اللہ تعالے کی قربت کا سب سے افضل طریقہ نماز ہی ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ [عليك بكثرة السجود لله، فِإنك لا تسجد لله سجدة ِالا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطيئة] (رواہ مسلم ) اللہ کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدہ کو اپنے اوپر لازم پکڑو، کیوں کہ اگر تم ایک ہی سجدہ اللہ کے لئے کرو، تو اللہ تعالے اس کے عوض تمہارا ایک درجہ بلند کریں گے، اور ایک گناہ مٹادیں گے ۔
واضح رہے کہ یہ کسی بھی زمان ومکان کے لئے عام ہے۔
روزه
روزه بھی ایک عظیم عبادت ہے۔ حضرت ھنیدہ بن خالد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اپنی بیوی سے، وہ روایت کرتی ہیں بعض امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم اجمعین سے کہ [كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر] (رواہ احمد وابوداوود والنسائی ) رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نویں ذی الحجہ، یوم عاشوراء اور ہر مہینے کے تین دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔ چنانچه امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذی الحجہ کے ان دنوں میں روزہ رکھنا شدت کے ساتھ مستحب ہے۔
البته عيد كے دن يا ايام تشريق ميں روزے نه ركھے جائيں۔ كيوں كه يه كھانے پينے كے دن هيں۔ اور رسول الله ﷺ نے ان دنوں ميں روزه ركھنے سے منع فرمايا هے۔
تکبیر وتہلیل اور تحمید
كیوں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: [فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد] کہ ان دنوں میں بکثرت تہلیل تکبیر اور تحمید کیا کرو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازاروں میں نکلتے تھے، اور لوگ انھیں سن سن کر تکبیر کہتے تھے۔
نیز فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منی میں اپنے خیمے کے اندر تکبیرات کہتے ، جسے سن کر اہل مسجد بھی تکبیرات کہتے تھے۔ یہاں تک کہ بازاروں میں بھی لوگ تکبیرات کہتے، جس سے منی گونج اٹھتا تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی منی میں ان دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے، بالخصوص نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر، بیٹھک میں ، مجلس میں اور راہ چلتے ہوئے ان تمام دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے۔
ان تکبیرات کو بلند آواز سے کہنا مستحب ہے، جیسا کہ حضرت عمر ، عبد اللہ ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل تھا۔ممکن ہے غافلوں کو سن کر یاد آ جائے، اور وہ بھی تکبیرات پڑھنے لگیں۔
تکبیر کے الفاظ
تکبیرات کے لئے کوئی خاص صیغہ یا لفظ ضروری نہیں ہی۔ تاہم سلف سے کئی طرح کے الفاظ منقول ہیں :
1 الله أكبر الله أكبر، لا أله إلا الله، والله أكبر الله أكبر، ولله الحمد (عن ابن مسعود رضي الله عنهما مصنف ابن أبي شيبة، كتاب صلاة العيدين. قال الألباني في إرواء الغليل 3/125 وإسناده صحيح)
2 الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، والله اكبر، الله اكبر، الله اكبر ولله الحمد (عن ابن مسعود رضي الله عنهما بنفس السند)
3 الله أكبر الله أكبر، ولله الحمد، الله أكبر وأجل، الله أكبر على ما هدانا (السنن الكبرى للبيهقي، كتاب صلاة العيدين. قال الألباني في إرواء الغليل 3/125 وسنده صحيح)
عرفہ کے دن کا روزہ
جو حج میں نہ ہوں ان کے لئے عرفہ کے دن روزہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا : [أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده] ( رواہ مسلم ) مجھے اللہ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوگا ۔
يوں تو عشر ذي الحجه كے سارے ايام افضل ترين هيں۔ مگر ان ميں عرفه كے دن كي فضيلت واهميت كا بڑا سبب وقوف عرفه هے۔ اس دن الله تعالى بحالت احرام حج كي نيت سےوقوف كر رهے بے شمار لوگوں كو بخش ديتا هے۔ جو لوگ بحالت احرام عرفه ميں هوں۔ انھيں تو اس كي فضيلت حاصل هو گئي۔ مگر جو لوگ عرفه نهيں پهونچ سكے هوں۔ ان لوگوں كے لئے الله تعالى نے اس دن كےروزے كو مشروع قرار ديا۔ تاكه اس كے بندوں ميں سے كوئي بھي اس دن كے فضائل وبركات سےمحروم نه ره جائے۔ یہ فضیلت عرفہ کے دن کے روزہ کا ہے، خواہ اختلاف زمان ومکان کے سبب تاریخ جو بھی ہو۔ جس دن حج كرنے والے عرفہ میں وقوف کریں اسی دن کا اعتبار ہوگا۔ نه كه اختلاف مطالع كا۔ كيوں كه رمضان كے برخلاف يهاں "صوم يوم عرفة" كي تحديد كي گئي هے۔ نیز یہ روزہ ان کے لئے مستحب نہیں، جو عرفہ میں حج کے ارادہ سے وقوف کی حالت میں ہوں، کیوں کہ رسول الله ﷺ نے بحالت افطار عرفہ کا وقوف فرمایا تھا۔
نماز عيدين كے احكام ومسائل
نماز عيدين كا حكم
نماز عيدين فرض عين هے۔ جس طرح جمعه كي نماز فرض عين هے۔ الله تعالے كا فرمان هے: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (سورة العصر: 2 ) ترجمه معاني: پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ قتاده وغيره نے نماز سے عيدين كي نماز مراد لي هے۔ اور يهاں امر كا صيغه هے۔ جو وجوب پر دلالت كرتا هے۔ جب كه يهاں صارف كے بجائے رسول الله ﷺ كي مداومت بھي وجوب هي كي جانب اشاره كرتي هے۔ نيز آپ ﷺ نے نماز عيدين كے لئے نكلنے كا حكم فرمايا۔ حتى كه جن عورتوں كي نماز نهيں تھي۔ انھيں بھي پيچھے رهنے كي اجازت نهيں دي۔ لهذا گرچه بعض علماء نے اسے فرض كفايه اور ديگر نے سنت مؤكده قرار ديا هے۔ واضح يهي هوتا هے كه يه سالانه فريضه اور فرض عين هے۔ (المغني 3 /253 ، الإنصاف 5 / 316 ، الاختيارات ص 82)
شيخ الاسلام ابن تيميه رحمه الله نے (المجموع 5 / 5) اسي كو ترجيح دي هے۔ شيخ ابن باز مجموع الفتاوى 13 / 7 شيخ ابن عثيمين مجموع الفتاوى 16 /214 اور شيخ الباني رحمهم الله نے اسي كو اختيار كيا هے۔
عيدين كے دنوں ميں روزه ركھنا
علماء كا اس بات پر اتفاق هے كه عيدكے دن روزه ركھنا غير مشروع هے۔ اگر كوئي ركھ لے تو اس كا روزه باطل هے۔ عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه، عَن النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قال: ََلا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ: الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى [ ترجمه معاني: حضرت ابو سعيد خدري رضي الله عنه نبي ﷺسے روايت كرتے هيں كه: دو دن ايسے هيں، جن ميں روزه نهيں هے۔ عيد فطر اور عيد اضحى۔ (صحيح البخاري)
امام نووي نے فرمايا: هر حال ميں ان دو دنوں ميں روزه ركھنے كي حرمت پر علماء كا اجماع هے۔ خواه نذر كے روزے هوں، نفلي روزے هوں، كفاره كے يا اس كے علاوه كوئي بھي روزے هوں" (المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 4 / 271)
عيدين كي نماز كهاں ادا كي جائے
عيدين كي نماز عيد گاه ميں سنت هے۔ اس پر علماء كا اتفاق هے۔ عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاةُ ...) ترجمه معاني: حضرت ابو سعيد خدري رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ فطر اور اضحى كے دن عيد گاه كے لئے نكلتے تھے۔ اور پهلي چيز جس سے شروع كرتے، وه نماز هوتي تھي۔ متفق عليه
عيدين كي نماز صحراء ميں ادا كي جائے گي۔ اور يهي افضل هے كه اسلام كے اس شعيره كو ادا كرنے كے لئے عيد گاه جايا جائے۔ ديكھئے المغني لابن قدامة 2 / 229-230 ، زاد المعاد لابن القيم 1 / 441 مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين كتاب صلاة العيدين
آپ ﷺ كي مسجد ميں ايك ركعت كا ثواب ايك هزار ركعت كے برابر هے۔ اس كے با وجود رسول الله ﷺ نے عيدين كي نماز هميشه صحراء ميں ادا كي۔ اور آپ ﷺ كے بعد آپ كے صحابه رضوان الله عليهم اجمعين كا عمل بھي اسي پر رها۔ البته كسي سبب كي بنا پر مسجدوں ميں ادا كرنا جائز هے۔ جيسا كه شارح صحيح بخاري علامه عيني رحمه الله نے فرمايا: عيدين كي نماز مسجد ميں نهيں پڑھي جائے گي۔ الا يه كه كوئي ضرورت پيش آ جائے۔
عيدگاه كا وقف شده زمين هونا ضروري نهيں هے۔ كسي كي ملكيت يا سركاري زمين خواه غير مسلم حكومت هي كيوں نه هو۔
عورتوں كا عيد گاه جانا
شريعت كا قاعده هے كه اسلامي امور ميں جو حكم مردوں كا هے۔ وهي عورتوں كا بھي هے۔ جب تك مرد وعورت ميں تفريق كي دليل ثابت نه هو جائے۔ جب كه نماز عيدين كے لئے رسول الله ﷺ نے عورتوں كو بالخصوص نكلنے كا تاكيدي حكم فرمايا۔ جيسا كه صحيحين ميں حضرت ام عطيه رضي الله عنها سے مروي هے كه: [أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ. قَالَ: لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا] (متفق عليه)
ترجمه معاني: رسول الله ﷺ نے هميں حكم ديا۔ كه فطر واضحى ميں نئي بالغه حائضه اور پرده نشينوں كو نكاليں۔ حائضه عورتيں نماز سے الگ رهيں گي۔ البته مسلمانوں كي دعاء اور خير ميں حاضر رهيں گي۔ ميں نے كها: يا رسول الله! هم ميں سے كسي كے پاس دو پٹه نه هو تو؟! آپ ﷺ نے فرمايا: اس كي بهن كو چاهئے كه اپني اوڑھني ميں سےاسے زيب تن كرا دے۔
نيز حضرت عبد الله بن رواحة انصاري كي همشيره رسول الله ﷺ سےبيان كرتي هيں كه هر پرده نشين پر نكلنا واجب هے۔ [وَجَبَ الخُرُوجُ عَلَى كُلِّ ذَاتِ نِطَاقٍ] (مسند أحمد (٢٧٠١٤)، بيهقي(٦٢٤٣) بطريق عمرة بنت رواحة اخت عبد الله رضي الله عنهما۔ ابن حجرٍ نے كها: يه روايت مرفوعا بھي وارد هے، جس كي سند لاباس به هے۔ فتح الباري (2 / 470 ( اور شيخ الباني نے اسے صحيح قرار ديا هے۔ صحيح الجامع (٧١٠٥(
واضح رهے كه عيد گاه جاتے وقت عورت خوشبو نه لگائے۔ اسلامي حجاب والے كپڑے پهنے۔ اور راستے كے كنارے سر جھكا كر چلے۔ ادھر ادھر متوجه نه هو۔ شوهر يا محارم كے ساتھ يا عورتوں كي جماعت كے ساتھ جائے۔
عورتوں كا مردوں سےالگ عيدين كي نماز پڑھنا
عورتوں كے لئے الگ سے مستقل نماز عيدين مسجدوں يا گھروں ميں ادا كرنےكے بارے ميں كوئي قابل استدلال صحيح صريح دليل وارد نهيں هے۔
امام مالك رحمه الله نے فرمايا: "عيدين كي نماز دو الگ الگ جگهوں پر نهيں پڑھي جائے گي۔ اور نه اپني اپني مسجدوں ميں پڑھيں گے۔ بلكه (باهر صحراء وعيد گاه كے لئے) نكليں گے، جيسا كه رسول الله ﷺ نكلتے تھے۔ ابن وهب سے منقول هے۔ وه يونس سے وه ابن شهاب سے روايت كرتے هيں كه انھوں نے فرمايا: رسول الله ﷺ عيد گاه كے لئے نكلتے تھے۔ اور اسي كو تمام شهر والوں نے اپني سنت بنا ليا" (المدونة المروية عن مالك 1/ 171)
عام نمازوں ميں عورت كي امامت عورت كے لئے جائز هے۔ امام نووي رحمه الله فرماتے هيں: " ام المؤمنين حضرت عائشه رضي الله عنها اور ام المؤمنين حضرت ام سلمه رضي الله عنها نے كچھ عورتوں كي (عام نمازوں ميں) امامت كي، تو ان كے وسط ميں كھڑي هوئيں۔ ان دونوں كي روايت امام شافعي رحمه الله نے اپني مسند ميں، اور امام بيهقي رحمه الله نے اپني سنن ميں حسن درجے كي سند سے كي هے" (المجموع للنووي4/187)
مگر چوں كه خطبه دينا عورت كے لئے غير مشروع هے۔ جس كي بناء پر عورتيں الگ سے جمعه نهيں پڑھ سكتيں۔ اسي طرح نماز عيدين كے بعد بھي خطبه هے۔ لهذا عورت كا الگ سے نماز عيدين ادا كرنا صحيح نهيں هوگا۔ اگر كوئي مرد امام آ كر انھيں جماعت كرائے۔ جيسا كه بعض شهروں ميں كيا جاتا هے۔ تو اس ميں اختلاط كي قباحت هے۔ لهذا اگر كوئي عورت عيدين كي نماز پڑھنا چاهتي هے۔ تو اسے مردوں كي جماعت ميں شامل هو كر ادا كرني هوگي۔ ورنه وه فائته سمجھي جائے گي۔ جب كه نماز جمعه هي كي طرح نماز عيد كي بھي قضاءنهيں هے۔ (الشيخ ابن عثيمين رحمه الله "فتاوى نور على الدرب" (189 /8)
عيد گاه جانے اور آنے كا طريقه
عيد گاه جانے سے پهلے كچھ كھانا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم َلا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ، وََلا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ [(صحيح سنن الترمذي للألباني رقم 542)
ترجمه معاني: حضرت عبد الله بن بريده رضي الله عنه اپنے والد روايت كرتے هيں كه: نبي ﷺعيد فطر كے دن (عيد گاه كے لئے) جب تك كچھ كھا نه ليتے نهيں نكلتے تھے۔ اور عيد اضحى كے روز جب تك نماز عيد ادا نه كر ليتے كچھ نه كھاتے تھے۔
عيد گاه جانے سے پهلے غسل كرنا
جمهور اهل علم نے عيدين ميں غسل كرنے كو مستحب قرار ديا هے۔ اگر كوئي محض وضوء پر اكتفاء كرے تو بھي كوئي حرج نهيں هے۔ عن عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أنه كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ إِلَى الْمُصَلَّى.
حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عيد گاه جانے سے عيد الفطر كے دن غسل كر ليا كرتے تھے۔ (مالك في الموطأ)
نيز حضرت علي رضي الله عنه سے بھي اسي طرح منقول هے۔
امام نووي رحمه الله فرماتے هيں كه: امام شافعي اور ان كے اصحاب رحمهم الله حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما كے اثر، اور جمعه پر قياس كرتے هوئےعيدين ميں غسل كرنے كو مستحب سمجھتے تھے۔
عيدين كے لئے اچھے كپڑے يا زينت كرنا
عيدين كے شعيره كا اظهار زيب وزينت اور نئے يا اچھے كپڑوں كے ساتھ كرنا مستحب هے۔ ايسے شرعي مناسبات ميں زيب وزينت اختيار كرنا سلف ميں معروف تھا۔ البته اگر كوئي عام حالات ميں هي ادا كرتا هے تو كوئي حرج نهيں هے۔ عن عبد الله بن عمر قال: أخذ عمر جبةً من إستبرق تباع في السوق، فأخذها، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ! ابتع هذه، تجمل بها للعيد والوفود...
حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما سے مروي هے كه حضرت عمر رضي الله عنه بازار ميں بك رهے ايك ريشمي جبه لے كر رسول الله ﷺ كے پاس آئے۔ اور كها: اے الله كے رسول! اس كو آپ خريد ليں۔ جس سے عيد كے دن يا وفود كے استقبال كے وقت آپ زينت فرما سكيں۔ متفق عليه
امام ابن قدامه رحمه الله نے فرمايا: يه دلالت كرتا هے كه ان كے نزديك ايسے موقعوں پريعني عيد اور استقبال وفود كے وقت زيب وزينت كرنا مشهور تھا۔
اسي طرح حضرت جابر رضي الله عنه سے منقول هے كه رسول الله ﷺ كا ايك حله تھا۔ جسے آپ ﷺ عيدين اور جمعه كے دن پهنا كرتے تھے۔ ( ابن خزيمة )
نيز حضرت ابن عمر رضي الله عنهما عيدين ميں بهترين كپڑے پهنا كرتے تھے۔ (رواه البيهقي بإسناد جيد)
عيد گاه ايك راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا
ايك راستے سے عيد گاه جانا۔ اور دوسرے راستے سے واپس آنا مسنون هے۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ . حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما نے فرمايا: جب عيد كا دن هوتا، تو نبي ﷺ (واپسي ميں) راسته بدل ليتے تھے۔ صحيح البخاري
اس كي كئي حكمتيں علماء نے بيان كي هيں:
- رسول الله ﷺ كي سنت پر عمل كرنا۔
- مختلف مقامات ميں اس شعيره كا اظهار كرنا۔
- مختلف جگهوں كے غرباء ومساكين وغيره تك اس دن رسائي كرنا۔
- ايك كے بجائے دو راستے قيامت كے دن گواهي ديں گے۔
پيدل چل كر عيد گاه جانا
عيدين كي نماز كے لئے چل كر پيدل عيد گاه جانا مستحب هے۔ عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إلى العيد ماشيا ويرجع ماشيا. حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما نے فرمايا: رسول الله ﷺ عيد كے لئے پيدل چل كر نكلتے۔ اور پيدل چل كر هي واپس لوٹتے تھے۔ (ابن ماجه )شيخ ألباني رحمه الله نے اسے حسن قرار ديا هے۔ في صحيح ابن ماجه (1295)
حضرت علي رضي الله عنه فرماتے هيں: عيد كے لئے پيدل چل كر آنا سنت ميں سے هے۔ (رواه وحسنه الترمذي)
نماز عيدين كا وقت
ايام عيد كے پهلے دن عيد كي نماز مشروع هے۔ اور بلا سبب عيد كے دوسرے دن تك مؤخر كرنا جائز نهيں هے۔ جس كا وقت سورج نكلنے سے شروع هو كر قبل از زوال تك باقي رهتا هے۔ افضل وقت سورج كے ايك نيزه بلند هونے كا وقت هے۔ اگر كسي وجه سے زوال سے پهلے عيد كي خبر هوئي، تو زوال سے پهلے پهلے نماز عيد ادا كر لي جائے گي۔ اگر زوال كے بعد عيد كي خبر هوئي تو نماز عيد دوسرے دن صبح پڑھي جائے گي۔ (رواه أحمد أبو داود والدارقطني وحسنه)
البته اس دن اگركوئي روزه سےهے، تو اسے توڑ دينا ضروري هے۔ كيوں كه عيد كے دن روزه ركھنا ممنوع هے۔
عيدين كي نماز اورمسنون قراءت
عيدين كي نماز دو ركعت هے۔ (متفق عليه عن ابن عباس رضي الله عنهما ومسند احمد عن عمر رضي الله عنه)
عيدين كي نماز خطبه سے پهلے پڑھي جائے گي۔ (متفق عليه عن ابن عمر رضي الله عنهما وصحيح مسلم عن جابر رضي الله عنه)
عيدين كي نماز سے پهلے كوئي نماز هے، اور نه اس كے بعد۔ (متفق عليه عن ابن عباس رضي الله عنهما)
عيدين كي نماز كے لئے اذان هوگي اور نه اقامت۔ (صحيح مسلم عن جابر رضي الله عنه)
عيدين كي نماز ميں جهري قراءت مسنون هے۔ (الدار قطني عن ابن عمر رضي الله عنهما)
نماز عيدين كي پهلي ركعت ميں سورۀ فاتحه كے بعد سورۀ (ق) اور دوسري ركعت ميں سورۀ فاتحه كے بعد سورة (اقتربت الساعة ...) پڑھني مسنون هے۔ (صحيح مسلم) يا پهلي ركعت ميں سورۀ فاتحه كے بعد سورۀ (الأعلى) اور دوسري ركعت ميں سورۀ فاتحه كے بعد سورۀ (الغاشية) پڑھني مسنون هے۔ جيسا كه رسول الله ﷺ كا عمل تھا۔ (مسند احمد عن سمرة رضي الله عنه)
نماز عيدين كا طريقه
پهلي ركعت ميں تكبير تحريمه كے بعد دعاء استفتاح پڑھي جائے گي۔ اس كے بعد سات تكبيرات زوائد كهے جائيں گے۔ پھر سورۀ فاتحه اور اس كے بعد كوئي سورت پڑھيں گے۔ اس كے بعد ركوع وسجود سےكھڑے هو كر پانچ تكبيرات زوائد كهے جائيں گے۔ پھر سورۀ فاتحه اور كوئي سورت پڑھي جائے گي۔ ركوع وسجود اور تشهد وتسليم عام نمازوں كي طرح سے ادا كئے جائيں گے۔
عيدين كي نماز ميں تكبيرات زوائد
زائد تكبيرات كا حكم
عيدين كي تكبيرات زائده كا حكم جمهور اهل علم كے نزديك بلا خلاف سنت هے۔ (نيل الأوطار 3/314) شيخ فوزان: الملخص الفقهي (ص213) (ص215) اسي لئے امام ابن قدامه رحمه الله فرماتے هيں: اگر كسي سے چھوٹ جائيں۔ يا جان بوجھ كر چھوڑ دے تو بھي نماز صحيح هو جائے گي۔ (المغني لابن قدامه)
زائدتكبيرات كي تعداد
پهلي ركعت ميں قراءت سے پهلے سات تكبيرات۔ اور دوسري ركعت ميں قراءت سے پهلے پانچ تكبيرات كهے جائيں گے۔ اكثر علماء كے نزديك پهلي ركعت كي سات ميں سے ايك تكبير تحريمه هے۔ اور چھ زائد تكبيرات هيں۔ عن إبن عمر أنه شهد الضحى والفطر مع أبي هريرة فكبَرَ في الأولى سبع تكبيرات قبل القراءة ، وفي الآخرة ستَ تكبيرات قبل القراءة) حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے مروي هے كه وه حضرت ابو هريره رضي الله عنه كي امامت ميں اضحى وفطر كے دن حاضر رهے۔ تو انھوں نے پهلي ركعت ميں قراءت سے پهلے سات تكبيرات، اور دوسري ركعت ميں قراءت سے پهلے چھ تكبيرات كهي۔ أبو داود (1151) الترمذي (536) ابن ماجة (1297)
پهلي ركعت ميں تكبير تحريمه كو شامل مانا گيا هے۔ جب كه دوسري ركعت ميں قيام كي تكبير كو بھي شمار كر ليا گيا هے۔ اس طرح پهلي ركعت ميں چھ اور دوسري ركعت ميں پانچ زائد تكبيرات هوئيں۔ زائد تكبيرات كا دونوں ركعت ميں قراءت سے پهلے هونے كي صراحت هے۔
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يُكبر في الفطر والأضحى في الأولى سبع تكبيرات، وفي الثانية خمس تكبيرات سوى تكبيرة الركوع) حضرت عائشه رضي الله عنها سے روايت هے كه نبي ﷺ فطر اور اضحى كي پهلي ركعت ميں سات تكبيريں، اور دوسري ركعت ميں ركوع كي تكبير كو چھوڑ كر پانچ تكبيريں كها كرتے تھے۔ (أبو داود (1149) (1150) وابن ماجة (1280) والدار قطني (2/46) شيخ ألباني رحمه الله نے اسے صحيح قرار ديا هے۔ صحيح أبي داود (1019)
اس روايت ميں تكبير تحريمه كو پهلي ركعت كي تكبيرات ميں شامل مانا گيا۔ مگر دوسري ركعت ميں قيام كي تكبير كو شامل كيا گيا، نه هي ركوع كي تكبير كو۔ لهذا پهلي ركعت ميں چھ زائد اور دوسري ركعت ميں پانچ زائد تكبيرات هوئيں۔
امام مالك رحمه الله نے فرمايا: همارے نزديك يهي موقف هے۔ (الموطأ ص115 ، شرح الزرقاني على الموطأ 1/513 ، المدونة 1/169 ، الكافي 1/264)
ابن عبد البر رحمه الله نے كها: اهل مدينه كا اسي پر عمل رها هے۔ (الاستذكار 8/53)
امام احمد رحمة الله عليه اور ان كے اصحاب كا بھي يهي مذهب هے۔ (المغني 3/271)
شيخ الاسلام ابن تيميه رحمة الله عليه نے (مجموع الفتاوى 20/365) ميں، اور امام ابن القيم رحمه الله نے (زاد المعاد 1/444) ميں اسي كو اختيار كيا هے۔
شيخ ابن باز رحمة الله عليه بھي اسي كے قائل هيں۔ (شرح بلوغ المرام 519)
شيخ عبد المحسن العباد حفظه الله نے اسي كو راجح قرار ديا هے۔ (كتب ورسائل عبد المحسن العباد 5/260)
امام شافعي رحمه الله كا ايك قول يه بھي هے كه پهلي ركعت ميں تكبير تحريمه كے بعد محض زائد تكبيريں سات هوں گي۔ اور دوسري ركعت ميں قيام اور ركوع كي تكبيرات كو چھوڑ كر زائد تكبيرات پانچ هوں گي۔ (الأم 1/395)] اور اسي كو ابن عبد البر نے (الكافي 1/264) ميں، اور ابن حزم نے (المحلى 5/83) ميں اختيار كيا هے۔ مذكوره دلائل هي اس قول كي بنياد هے۔
ايك تيسرا قول هے كه پهلي ركعت ميں قراءت سے پهلے تين اور دوسري ركعت ميں قراءت كے بعد اور ركوع سے پهلے تين زائد تكبيريں هيں۔ (حاشية إبن عابدين (2/172) (الإنصاف 2/341) اس كي دليل مصنف عبد الرزاق (5687)ميں وارد حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كا عمل هے۔ جسے ابن حزم نے (المحلى 5/ 83 ميں) صحيح قرار ديا هے۔ حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے بھي اسي طرح مروي هے۔
زائد تكبيرات كب كهي جائيں
زائد تكبيرات كا محل دعاء استفتاح اور تعوذ كے درميان هے۔ اور دوسري ركعت ميں تعوذ سے پهلے۔تكبير تحريمه كے بعد دعاء استفتاح پڑھيں گے۔ پھر تكبيرات كهي جائيں گي۔ اس كے بعد تعوذ اور قراءت هوگي۔ كيوں كه دعاء استفتاح تو نماز كي شروعات هي كے لئے هے۔ (الأم 1/395) (شرح الزركشي 2/223) (حاشية ابن عابدين 2/172) (المجموع 5/20)
امام نووي رحمه الله نے كها: پهلي ركعت ميں زائد تكبيرات دعاء استفتاح اور تعوذ كے درميان، اور دوسري ركعت ميں تعوذ سے پهلے هوں گي۔ (الأذكار ص202)
اسي كو امام سرخسي رحمه الله نے (المبسوط 2/42) ميں، شيخ ابن باز رحمه الله نے(شرح بلوغ المرام 519) ميں، شيخ فوزان حفظه الله نے (الملخص الفقهي ص213) ميں راجح قرار ديا هے۔ اور سعودي كي فتاوى كميٹي نے (فتاوى اللجنة الدائمة 1732) ميں اسي پر فتوى ديا هے۔
دوسرا قول تكبير تحريمه كے فورا بعد كا هے۔ اس كے مطابق تكبيرات زوائد كے بعد دعاء استفتاح پڑھني هے۔ (التمام 1/243)
تكبيرات زوائد ميں رفع اليدين
پهلا قول اكثر اهل علم بلكه جمهور كا مذهب هے كه هر تكبير كے ساتھ رفع اليدين كرنا هے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه سے منقول هے كه وه جنازه اور عيدين ميں هر تكبير كے ساتھ رفع اليدين كيا كرتے تھے۔ (بيهقي في الكبرى 3/293)
حضرت عطاء رحمه الله اور ان كے پيچھے پڑھنے والے رفع اليدين كيا كرتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شيبة 2/491) (11382)
اس كے قائل هيں: مالك بن أنس (أحكام العيدين للفريابي ص182) يحيى بن معين (سؤلات الدوري 3/464) ابن قدامة (المغني 2/119) وقال ابن القيم (زاد المعاد 1/443)رحمهم الله اجمعين ۔
دوسرا قول يه هے كه تكبيرات زوائد ميں هر تكبير كے ساتھ هاتھوں كو اٹھانا رسول الله ﷺ سے ثابت نهيں هے۔ لهذا اصل يه هے كه هر تكبير كے ساتھ رفع اليدين نه كيا جائے۔ بعض صحابه سے هر تكبير كے ساتھ رفع اليدين كا عمل نقل كيا جاتا هے۔ مگر ان كي صحت محل نظر هے۔ امام مالك نے (المدونة 1/169) اور ابن حزم ظاهري نے (المحلى 5/128) ميں اختيار كيا هے۔ حضرت ابن عمر رضي الله عنه كا جنازے كي تكبيروں ميں رفع اليدين كرنے كي روايت كو شيخ الباني رحمه الله نے ضعيف قرار ديا هے۔ (إرواء الغليل 3/112) نيز (أحكام الجنائز 148) ميں اس اثر كي تصحيح پر شيخ ابن باز رحمه الله كا رد كيا هے۔
تكبيرات زوائد ميں هاتھوں كا باندھنا
تكبيرات زوائد ميں خواه رفع اليدين كريں يا نه كريں۔ چوں كه نماز ميں كھڑے هونے كي هيئت هي هاتھوں كا سينے پر بندھا هونا هے۔ لهذا هاتھوں كا باندھنا مستحب هے۔ (حاشية إبن عابدين 2/175) اگر كوئي نه باندھے تو بھي كوئي حرج نهيں هے۔ (الحاوي 3/116)
تكبيرات زوائد كے درميان كچھ پڑھنا
رسول الله ﷺ سے تكبيرات زوائد كے درميان كچھ پڑھنا وارد نهيں هے۔ البته حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه سے اس كے بارے ميں سوال كيا گيا، تو آپ نے جواب ديا كه: الله كي حمد وثناء كيا كرو، اور رسول ﷺ پر صلاة وسلام بھيجو۔ (رواه الطبراني في المعجم الكبير 2/37) شيخ الباني رحمه الله نے اس كو صحيح قرار ديا هے۔ (الإرواء 642)
اگر كوئي زائد تكبيرات بھول جائے
اگر بھول چوك يا غلطي سے تكبيرات كم يا زياده هو جائيں۔ يا پوري تكبيرات زوائد چھوٹ جائيں۔ تو بھي نماز صحيح هو جائے گي۔ گر چه جان بوجھ كر هي كيوں نه هو۔ كيوں كه زائد تكبيرات مسنون هيں۔ (المغني لابن قدامه)
اگر بھول كر قراءت شروع كر دے، تو اب واپس دوباره تكبيرات نهيں كهے گا۔ كيوں كه دعاء استفتاح كي طرح اس كا محل فوت هو گيا۔ (المجموع 5/18) ، (الأذكار ص202) (المغني 3/375) اگر چاهے تو آخر سجدۀ سهو كر لے۔ ورنه كوئي حرج نهيں هے۔
بعض علماء واپس تكبيرات كهنے اور وهيں سے آگے كي نماز كو دهرانے كے قائل هيں۔ (بدائع الصنائع 1/378) ، (عقد الجواهر 1/244) ، (فتح العزيز 5/16) ، (الشرح الكبير 5/356) اور اسي كو ابن عبد البر نے اختيار كيا هے۔(الكافي 1/264)
نماز عيدين ميں سجدۀ سهو
نماز عيدين سوائے چند باتوں كےبالكل نماز جمعه هي كي طرح هے۔ طهارت وضوء استقبال قبله وديگر شروط وضوابط ايك جيسے هيں۔ البته جمعه كي نماز چوں كه ظهر كي بدل هے، اور جمعه كا خطبه دو ركعت كے قائم مقام هے۔ اس لئے جمعه كا خطبه سننا واجب هے۔ بر خلاف خطبۀ عيدين كے۔ لهذا سارے احكام بھي جمعه هي كي طرح هيں۔
اگر امام سے سهو ونسيان صادر هو جائے۔ تو اس كے لئے سجدۀ سهو كرنا مشروع هے۔ اگر عيد گاه سے واپسي تك واجب سجدۀ سهو نهيں كيا۔ توجمعه هي كي طرح اب نه تو اس نماز كي قضاء هے، او نه سجدۀ سهو۔ بلكه اسےتوبه واستغفار كرنا چاهئے۔ اگر كسي سے ايك ركعت فوت هو جائے، يا تشهد ميں سلام پھيرنے سے پهلے ملے۔ تو وه نماز مكمل كر لے۔ اگر كسي سے پوري نماز هي فوت هو گئي۔ تو جمعه كي طرح اب اس كي قضاء نهيں هے۔ (شيخ ابن باز، شيخ ابن عثيمين رحمهما الله)
عيدين كا خطبه
خطبۀ عيدين كا حكم
جمهور اهل علم كے نزديك عيدين كا خطبه سنت هے۔ عن عبد الله بن السائب عن النبي صلى الله علهي وسلم: ((إنّا نخطب، فمن أحبّ أن يجلس للخطبة فليجلس، ومن أحبّ أن يذهب فليذهب) [أبو داود (1155) النسائي (3/185) ابن ماجه (1290) الحاكم 1/295] حضرت عبد الله بن السائب رضي الله عنه نبي ﷺسے روايت كرتے هيں كه آپ ﷺ نے فرمايا: هم خطبه دينے والے هيں۔ جسے خطبه سننے كے لئے بيٹھنا پسند هو وه بيٹھے۔ اور جس كو جانا پسند هو وه جائے۔
امام ابو داوود رحمه الله نے فرمايا كه يه روايت "عن عطاء عن النبي صلى الله عليه وسلم" مرسل هے۔
امام نسائي رحمه الله كهتے هيں "يه خطا هے۔ اور صحيح يه هے كه يه مرسل هے" جيسا كه تحفة الأشراف (4/347) ميں هے۔
امام يحيى بن معين(السنن الكبرى للبيهقي 3/301) اور امام ابو زرعة (علل ابن أبي حاتم 1/180) رحمهما الله نے اس كے مرسل هونے كو ترجيح دي هے۔
امام حاكم رحمه الله نے اسے "صحيح على شرط الشيخين" كها۔ اور امام ذهبي رحمه الله نے اس پر كوئي تعاقب نهيں كيا۔
شيخ الباني رحمه الله نے اس حديث كو صحيح قرار ديا هے۔ (إرواء الغليل629)
اس حديث كے اعتبار سے ديكھا جائے تو عيدين كا خطبه سنت هے۔ كيوں كه اگر واجب هوتا تو اسے سنے بغير كسي كو جانے كا اختيار نه ديا جاتا۔
امام شوكاني رحمه الله نے فرمايا: سننے والے كو اختيار دينا خطبه كے عدم وجوب پر دلالت نهيں كرتا۔ بلكه يه اس كے وجوب پر دلالت كرتا هے۔ مگر يه كها جائے گا كه يه دليل من باب الاشاره هے۔ كيوں كه جس كا سننا واجب نهيں هوگا۔ اس كا كرنا بھي واجب نهيں هوگا۔ كيوں كه خطبه خطاب هے۔ بغير مخاطب كے تو خطاب هي نهيں هو سكتا۔ جب مخاطب پر سننا هي واجب نهيں۔ تو خطاب بھي واجب نه هوا۔ جب كه نماز عيدين كو واجب قرار دينے والے بھي اس كے خطبه كے عدم وجوب پر متفق هيں۔ اس كے وجوب كے كسي قائل كو ميں نهيں جانتا۔ (نيل الأوطار3/363)
سنت هونے كا مطلب يه نهيں كه اسے ترك كر ديا جائے۔ بلكه رسول الله ﷺ كي مداومت كے سبب خطبه كا ديا جانا ضروري هے۔ والله اعلم
عيدين كا خطبه كے لئے منبر
عيدين كا خطبه رسول الله ﷺ نے بغير منبر كے ديا تھا۔ جيسا كه امام بخاري رحمه الله نے حضرت ابو سعيد خدري رضي الله عنه كي روايت سے استنباط كيا هے۔ (صحيح البخاري 956) امام ابن القيم (زاد المعاد 1/ 429) ابن رجب (فتح الباري 3/ 403) رحمهما الله بھي اسي كے قائل هيں۔ اور سنت يهي هے كه بغير منبر كے عيدين كا خطبه ديا جائے۔ ليكن اگر كوئي منبر كا استعمال كرے تو يه امر واسع هے۔ شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے حديث جابر ميں موجود "نزل" سے اسي كي جانب اشاره كيا هے۔ (مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين 16 /350)
عيدين كا خطبه ايك هوگا يا دو
اكثر اهل علم كا ماننا هے كه عيدين كا دو خطبه هوگا۔ دونوں كو ايك دوسرے سے جدا كرنے كے لئے درميان ميں بيٹھا جائے گا۔ جيسا كه جمعه كے خطبه ميں هوتا هے۔ ان كي دليل هے كه: عن جابر بن عبد الله قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فطر أو أضحى فخطب قائمًا ثم قعد قعدة ثم قام ) حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه سے روايت هے كه فطر يا اضحى كے دن رسول الله ﷺ نكلے۔ تو آپ ﷺ نے كھڑے هو كر خطبه ديا۔ اس كے بعد بيٹھ گئے۔ پھر كھڑے هوئے۔ ابن ماجه (1289)، والبيهقي في الكبرى (3/198)
اس ميں ايك راوي اسماعيل بن مسلم الخولاني هے۔ جو ضعيف هے۔ اور ايك راوي ابو الزبير هے۔ جو كه مدلس هے۔ اور يهاں عن سے روايت كيا هے۔
شيخ الباني رحمه الله نے اسے ضعيف قرار ديا هے۔ نيز فرمايا: يه روايت سند اور متن دونوں اعتبار سے منكر هے۔ اور محفوظ يه هے كه يه جمعه كے خطبه كے بارے ميں هے۔ ضعيف سنن ابن ماجه (265)
دوسري دليل امام شافعي رحمه الله نے نقل كيا هے۔ عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة قال : السنة أن يخطب الإمام في العيدين خطبتين يفصل بينهما بجلوس ) حضرت عبيد الله بن عبد الله بن عتبه نے كها: سنت يه هے كه امام عيدين ميں دو خطبه دے۔ اور دونوں كے درميان بيٹھ كر فصل كرے۔ (كتاب الأم للشافعي 1/272 ، بدائع الصنائع للكاساني 1/276 ، المغني لابن قدامة 2/121)
امام شوكاني رحمه الله نے فرمايا: عبيد الله بن عبد الله بن عتبه تابعي هيں۔ لهذا ان كا كلام سنت كے درجے تك نهيں پهونچتا۔ (نيل الأوطار 3/323)
تيسري دليل عن عامر بن سعد عن أبيه سعد: أنّ النبي صلى الله عليه وسلم صلّى العيد بغير أذان ولا إقامة، وكان يخطب خطبتين قائمًا، فيفصل بينهما بجلسة) حضرت عامر بن سعد اپنے باپ سے روايت كرتے هيں كه نبي ﷺ نے عيد كي نماز بغير اذان واقامت كے ادا كي۔ اور كھڑے هو كر دو خطبه ديا كرتے تھے۔ ان دونوں كے درميان بيٹھ كر ان كو الگ كرتے تھے۔ [مسند البزار، انظر: كشف الأستار (1/315)]
اس ميں عبد الله بن شبيب ايك راوي هے۔ جس كے بارے ميں امام ابن حجر عسقلاني رحمه الله فرماتے هيں: "ضعيف جدا" (لسان الميزان 3/299)
امام نووي رحمة الله عليه نے كها: يه روايت ضعيف اور غير متصل هے۔ بلكه عيدين ميں دو خطبوں كے بارے ميں كچھ بھي ثابت نهيں هے۔ دو خطبه كے قائلين كا اعتماد محض جمعه كے خطبه پر قياس كرنا هے۔ (انظر: شرح فتح القدير 2/79)
شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے هيں: جو شخص صحيحين وغيره كي متعدد روايات پر نظر ركھتا هے۔ اس پر يه واضح هو جاتا هے كه ان سے سوائے ايك خطبه كے ثابت نهيں هوتا۔ (الشرح الممتع 5/191 – 192)
لهذا سنت يهي هے كه عيدين كا خطبه ايك هي هے۔ اور اس كے درميان بيٹھنا مشروع نهيں هے۔ اور يهي قول عطاء رحمه الله كا هے۔ اور انھوں نے خلفاء راشدين ميں سے حضرت أبو بكر حضرت عمر حضرت عثمان رضي الله عنهم سے بھي يهي نقل كيا هے۔ (المصنف لعبد الرزاق 5650)
متاخرين ميں سے سيد سابق (فقه السنة لسيد سابق 1/240) شيخ ألباني (تمام المنة للألباني 349) شيخ ابن عثيمين (الشرح الممتع 5/191 – 192) رحمهم الله نے اسي كو اختيار كيا هے۔ جب كه اگر كوئي جمهور علماء كے قول پر عمل كرتے هوئے دو خطبه ديتا هے۔ تو اس كي بھي گنجائش هے۔ والله اعلم بالصواب۔
عيدين كي تهنيت ومباركبادي
عيدين كے دنوں ميں ايك دوسرے كو تهنئت ومباركبادي دينے، اور دعائيه جملوں كا تبادله كرنے ميں كوئي حرج نهيں هے۔ جيسے "تقبل الله منا ومنكم" يا "أعاده الله علينا وعليكم" وغيره كهنا۔ جو اصل ميں دعاء هيں۔ ابن التركماني كهتے هيں كه اس بارے ميں ايك اچھي حديث هے۔ اور وه حديث محمد بن زياد كي هے۔ وه كهتے هيں كه: (كنت مع أبي أمامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي، فكانوا إذا رجعوا يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك) ميں نبي ﷺ كے اصحاب ميں سےحضرت ابو امامه باهلي رضي الله عنه وغيره كے ساتھ تھا۔ تو جب وه عيد گاه سےواپس لوٹتے، تو ايك دوسرے كو كهتے: "الله هم سے اور آپ سے قبول فرمائے" امام احمد رحمه الله نے اس كي سند كو "جيد" كها هے۔ (الجوهر النقي 3/320)
شيخ الاسلام ابن تيميه رحمة الله عليه نے فرمايا: عيد كے دن عيد كي تهنيت ومباركبادي، اس طرح سے كه جب نماز عيد كے بعد ايك دوسرے سے مليں، تو كهيں: "الله هم سے اور آپ سے قبول فرمائے" اور "الله ايسا دن آپ كو دوباره دكھائے" يا اس طرح كے ديگر، تو صحابه رضوان الله عليهم كي ايك جماعت سے نقل كيا گيا هے كه وه ايسا كرتے تھے۔ اور امام احمد وغيره اماموں نے اس كي رخصت دي هے۔ مگر امام احمد نے فرمايا: "ميں كسي كو مباركبادي دينے ميں پهل نهيں كروں گا۔ اگر كسي نے ميرے ساتھ پهل كي، تو ميں اس كا جواب دوں گا" (مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيميه 24/138 )
عيدين كے دن كھيل كود كرنا اور خوشياں منانا
عيدين كے دن كھانے پينے، خوشياں منانے اور وسعت ظرفي كے دن هيں۔ اسي لئے ان ميں روزه ركھنا ممنوع هے۔ (متفق عليه) خوشياں منانا حمد يا نعت وغيره گانا مباح قرار ديا۔ جيسے انصار كي دو بچيوں نے اپني خوشيوں كا اظهار كيا۔ (صحيح البخاري) كھيل كود كرنے يا ديكھنے كي اجازت دي۔ جيسے حبشه والوں كو خود رسول الله ﷺ بھي كھيلتے هوئے ديكھتے رهے۔ (صحيح البخاري) آپ ﷺ جب مدينه آئے۔ تو ان كے دو مخصوص دن تھے۔ جن ميں وه كھيل كود كيا كرتے تھے۔ آپ ﷺ نے سوال كيا كه يه دونوں كيا دن هيں؟ لوگوں نے كها: كه هم زمانۀ جاهليت ميں ان دونوں دنوں ميں كھيل كود كيا كرتے تھے۔ تو آپ ﷺ نے فرمايا: تمهارے لئے ان دو دنوں كو الله نے ان سے بهتر دو دنوں كے ساتھ بدل ديا هے۔ اضحى كا دن اور فطر كا دن۔ (صحيح سنن أبي داود)
قربانی كے احكام ومسائل
قرباني كا مفهوم
الله كے تقرب كے لئےعيد الاضحى كے دنوں ميں بهيمة الانعام ميں سے ذبح كرنا۔
قرباني كي مشروعيت
الله تعالى نے فرمايا: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الكوثر: ٢) ترجمه معاني: پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ نحر كي تفسير حضرت ابن عباس رضي الله عنهما نے اضحى كے دن كي قرباني سے كي هے۔ اور جمهور مفسرين نے اسي كو اختيار كيا هے۔ (زاد المسير لابن الجوزي 9/249)
حضرت انس رضي الله عنه سے مروي هے۔ كه نبي ﷺ نے دو چتكبرے مينڈھے كي قرباني كي۔ ميں نے ديكھا اس كي گردن كے ايك طرف آپ ﷺ نے اپنا قدم ركھا هوا تھا۔ اور تسميه وتكبير كه رهے تھے۔ پھر اپنے هاتھ سے ان دونوں كو ذبح كيا۔ (صحيح مسلم)
اسي لئے قرباني كي مشروعيت پر علماء كا اجماع هے۔ جيسا كه ابن قدامه رحمه الله نے نقل كيا هے۔ (المغني 11/ 95)
قرباني كا حكم
قرباني صحيح قول كے مطابق سنت مؤكده هے۔ حضرت ام سلمه رضي الله عنها سے مروي هے كه نبي ﷺ نے فرمايا: إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا"
جب عشر (ذي الحجه كے ابتدائي دس روز) داخل هو جائے۔ اور تم ميں سے كوئي قرباني كا اراده كر لے۔ تو اپنے بال يا جلد ميں سے زائل نه كرے۔ (صحيح مسلم)
اس حديث كے سياق سے معلوم هوتا هے كه قرباني واجب نهيں بلكه سنت هے۔ كيوں كه اگر واجب هوتي تو اختيار نه ديا جاتا۔ نيز حضرت ابو بكر وعمر رضي الله عنهما سے ثابت هے كه لوگ كهيں قرباني كو واجب نه سمجھ ليں۔ اس وجه سے وه قرباني نهيں كيا كرتے تھے۔
بعض علماء نے اسے واجب قرار ديا هے۔ ان كي دليل آپ ﷺ كا عمل هے۔ ني ايك روايت جس ميں هے كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: جو استطاعت كے باوجود قرباني نه كرے۔ تو وه همارے عيد گاه ميں نه آئے۔ (أحمد وابن ماجه)
جهاں تك آپ ﷺ كا عمل هے۔ تو محض آپ كے عمل سے وجوب ثابت نهيں هوتا۔ جيسا كه علم الاصول كا قاعده هے۔ اور يه روايت موقوف هے۔ جيسا كه ابن حجر رحمه الله نے نقل كيا هے۔ (فتح الباري 3/ 16) البته قدرت هونے كے با وجود قرباني كو ترك كرنا صحيح نهيں هے۔
قرباني كي فضيلت
يقينا اسلام كے اس عظيم شعيره پر عمل كرنے والا اور سنت رسول ﷺ كي اتباع كرنے والا بڑا هي اجر و ثواب كا حقدار هے۔ البته قرباني كي فضيلت كے لئے قرآن ميں اس كا ذكر آنا، اور رسول الله ﷺ كا اس پر عمل كرنا هي كافي هے۔ مگر اس كي فضيلت ميں كئي ساري روايتيں بيان كي جاتي هيں۔ ان ميں سے كوئي بھي روايت صحيح طور پر ثابت نهيں هے۔ جيسا كه شارح ترمذي ابن العربي رحمه الله نے فرمايا: "قرباني كي فضيلت ميں كوئي بھي صحيح حديث ثابت نهيں هے۔ لوگوں نے عجيب وغريب روايات بيان كي هيں، جو كه صحيح نهيں هيں۔ (عارضة الأحوذي 6 / 288)
قرباني كي فضيلت ميں چند ضعيف روايتيں
ان ضعيف روايتوں ميں سے چند يه بھي هيں:
(1) "ما عمل ابن آدم يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم" حضرت عائشه رضي الله عنها سے روايت كي جاتي هے۔ اور يه روايت ضعيف هے۔ (العلل المنتاهية لابن الجوزي 2 / 569 ) حديث رقم ( 936 ) و (علل الترمذي الكبير للترمذي 2 / 638 ) و (المجروحين لابن حبان 3 / 851 ) و (المستدرك للحاكم 4 / 221 ) أنظر تعليق الذهبي . و كتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 526)
(2) "يا رسول الله صلى الله علي وسلم ما هذه الأضاحي قال سنة أبيكم إبراهيم" يه حديث موضوع اور گھڑي هوئي هے۔ (ذخيرة الحفاظ للقيسراني حديث رقم ( 3835 ) (الضعفاء لابن حبان 3 / 55 ) و (مصباح الزجاجة للبوصيري 3 / 223 ) و سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة للألباني حديث رقم ( 527)
(3) "يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها" يه حديث منكر هے۔ (العلل لأبن أبي حاتم 2 / 38 ــ 39 ) و (مجمع الزوائد للهيثمي 4 / 17 ) و (الترغيب و الترهيب للمنذري 2 / 99 ) و (الضعفاء الكبير للعقيلي 2 / 38 ) و سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 528)
(4) "عظموا ضحاياكم فإنها على الصراط مطاياكم" يه حديث ضعيف جدا هے۔ (الشذرة في الأحاديث المشتهرة لابن طولون 1 / 96) و( المشتهر من الحديث الموضوع والضعيف للجبري 1 / 197 ) و( سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة للألباني 1 / 173 ) و ( كشف الخفاء للعجلوني حديث رقم 1794)
(5) "من ضحى طيبة بها نفسه محتسبا لإضحيته كانت له حجابا من النار" يه حديث موضوع هے۔ (مجمع الزوائد للهيثمي 4 / 17 ) و (خلاصة البدر المنير لابن الملقن 2 / 386 ) و(نيل الأوطار للشوكاني 5 / 196 ) و سلسة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 529)
(6) "إن الله يعتق بكل عضو من الضحية عضوا من المضحي" اس حديث كي كوئي اصل نهيں هے۔ (تلخيص الحبير للحافظ ابن حجر 4 / 252 ) و (خلاصة البدر المنير لابن الملقن 2 / 386)
(7) "يا أيها الناس ضحوا و احتسبوا بدمائها" يه حديث موضوع هے۔ (المعجم الأوسط للطبراني 8 / 176) و (ميزان الاعتدال للذهبي 4 / 205 ) و سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 530)
(8) "ما أنفقت الورق في شيء أفضل من نحيرة في يوم العيد" يه حديث ضعيف جدا هے۔ (الكامل في الضعفاء من الرجال لابن عدي 1 / 228) و (المجروحين لابن حبان 1 / 101) و سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 524)
(9) "ما عمل ابن آدم في هذا اليوم أفضل من دم يهراق إلا" يه حديث ضعيف هے۔ ( المعجم الكبير للطبراني 11 / 32 ) (التمهيد لابن عبد البر 23 / 192 ) و سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني حديث رقم ( 525) والله اعلم بالصواب۔
قرباني كے شرائط
قرباني كي صحت كے لئے كچھ شرائط هيں۔ اگر ان شرائط
ميں سے ايك شرط بھي فوت هو جائے، تو اس كي مشروط يعني قرباني كي صحت بھي فوت هو
جائے گي۔ وه شرائط درج ذيل هيں:
-
جانور كا بهيمة الانعام ميں
سے هونا ۔
-
جانور كي عمر اور اس كےمواصفات
شريعت كےمطابق معتبر هونا ۔
-
جانور ميں جن عيوب كا شرعا
اعتبار كيا گيا هے۔ ان سے خالي هونا۔
-
اس جانور كا اپني ملكيت،
مسموح يا موكل هونا۔ چوري يا غصب كيا هوا يا گروي كا نه هو۔
-
يوم النحر يا ايام تشريق كے
تين دنوں كے اندر مشروع طريقے سے ذبح كرنا۔
قرباني كےلئے شرعا معتبر جانور
قرباني كے لئے بهيمة الانعام ميں سےهونا ضروري هے۔
جيسا كه الله تعالے نے فرمايا: ﴿ وَلِكُلِّ
أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا
اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ (سورة الحج: ٣٤) ترجمه معاني: اور ہر امت کے
لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں۔ تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا
نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔
اور بهيمة الانعام كي وضاحت ميں الله تعالى نے
فرمايا: ﴿ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ
الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ
الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ نَبِّئُونِي
بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ * وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ
اثْنَيْنِ ۗ قُلْ
آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ
الْأُنثَيَيْنِ﴾ (سورة الأنعام: ١٤٣- 144) ترجمه معاني: آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری
میں دو قسم، آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان
دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں
لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو () اور اونٹ میں دو قسم اور
گائے میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا
دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟
نيز فرمايا: ﴿وَأَنزَلَ
لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ﴾
(سورة
الزمر: ٦) ترجمه معاني: اور تمہارے لئے
چوپایوں میں سے (آٹھ نر وماده) اتارے۔
امام شوكاني رحمه الله فرماتے هيں: رسول الله ﷺ يا
صحابۀ كرام ميں سے كسي ايك سے بھي ان كے علاوه قرباني كرنا ثابت نهيں هے۔ (فتح
القدير 9/97)
زمان ومكان كے اعتبار سے اونٹ كي تمام مختلف انواع
واقسام نر وماده كي قرباني جائز هے۔ اسي طرح گائے بيل اور اس جنس ميں جو بھي شامل
هوں، ان كي قرباني كي جا سكتي هے۔ بكرا بكري، بھيڑ يا مينڈھا اور ان كے جنس ميں جو
بھي آتے هوں، خواه اختلاف زمان ومكان كے سبب ان كے انواع واقسام جو بھي هوں۔ ان كي
قرباني جائز هے۔ مثلا بختي اونٹ دنبه وغيره۔
اونٹ گائے بھيڑ اور بكري ميں سے نر وماده ملا كر كل
آٹھ قسم كے جانور بنتے هيں۔ جن كي قرباني درست هے۔ ان كے علاوه ميں سے گرچه حلال
هي كيوں نه هوں، مگر ان كي قرباني جائز
نهيں هے۔ لهذا هرن، جنگلي گائے، جنگلي گدھے، گھوڑے مرغي يا پرندے وغيره كي قرباني
جائز نهيں هوگي۔ (المجموع 8/364-366)
بعض لوگوں كا شاذ قول هے۔ جيسا كه امام ابن المنذر
رحمه الله نے حسن بن صالح سے نقل كيا هے كه جنگلي گائے ميں سات اور هرن ميں ايك كي
قرباني هوگي۔ (المنهاج شرح صحيح مسلم للنووي) ليكن ان كے عدم جواز پر جمهور كا
اتفاق هے۔
امام ابن قدامه رحمه الله نے كها: كه بكري اور هرن سے پيدا هونے والے جانور كي بھي
قرباني نهيں هو سكتي۔ كيوں كه وه بهيمة الانعام ميں سے نهيں كها جائے گا۔ (المغنى
لابن قدامه 3/ 368)
شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے فرمايا: بهيمة الانعام
اونٹ، گائے اور بكري هے۔ خواه بھيڑ هو يا
بكري۔ ابن كثير نے اسي كي تاكيد كي هے۔ اور حسن وقتادة كي جانب منسوب كيا هے۔ اور
ابن جرير نے كها: عرب كے نزديك ايسا هي هے۔ (أحكام الأضحية والزكاة لابن عثيمين)
ظاهرى نصوص كو ديكھا جائے تو يه بات واضح هو جاتي هے۔
كه رسول الله ﷺ نے اكثر نر جانور كي قرباني كيا كرتے تھے۔ لهذا ماده سے نر كي
قرباني افضل هے۔ جب كه دونوں سے قرباني ادا هو جائے گي۔ اس پر علماء كا اتفاق هے۔
(انظر: اضواء البيان تفسير سورة الحج)
بھينس كي قرباني
رسول الله ﷺ كے زمانے ميں بھينس كا كوئي ذكر نهيں
ملتا هے۔ جب فتوحات كا سلسله بڑھا۔ تو زمانۀ قديم هي ميں عجم سے متعارف هوا۔ شرعي
ضابطوں كےتحت اس كا شمار حلال جانوروں ميں هوتا هے۔ متقدمين نے اسے گائے كے مثل قرار دے كر اس پر زكاة مقرر كيا تھا۔ اسي لئے قرباني ميں بھي اكثر
متاخرين نے اسے گائے كے حكم ميں ركھا هے۔
امام سفيان ثوري رحمه الله نے كها: بھينسوں كا شمار
گائے كے ساتھ كيا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق 4/ 23 برقم
4881)
امام حسن بصري رحمة الله عليه كهتے هيں: بھينس گائے
كے درجه ميں هے۔ (مصنف ابن ابي شيبه7/ 65
برقم 10848)
امام مالك رحمة الله عليه فرماتے هيں: يه (بھينس) سراپا گائےهے۔ (موطا مالك 294)
نيز فرماي: بھينس اور گائے برابر هيں۔ (كتاب
الاموال لابن عبيد 2/ 385 برقم 812)
حتى كه قواميس وغيره ميں بھي اسي مفهوم كو ملحوظ ركھا
گيا: بھينس بڑي گائے ميں سے هے۔ (المنجد 101)
امام ابن المنذر رحمه الله نے فرمايا: اور (ائمه نے)
اس پر اجماع كيا كه بھينسوں كا حكم گائے كا هي حكم هے۔ (كتاب الاجماع 37)
يه تو حكم عام هے۔ اسي سے اكثر علماء نے قرباني ميں
بھي اسي حكم كو برقرار ركھا۔ شيخ ابن باز شيخ ابن عثيمين رحمهما الله اور شيخ صالح
الفوزان حفظه الله وغيرهم نے بھي اپنے اپنے فتاوے ميں اسي كو اختيار كيا هے۔ اور
لجنه دائمه نے بھي اسي پر فتوى ديا هے۔
بھينس كي قرباني ميں احتياط
اس باب ميں شيخ عبيد الله مباركپوري رحمة الله عليه
كا قول افضل واحوط معلوم هوتا هے۔ كه رسول الله ﷺ سے حلال جانوروں ميں بھي قرباني
كے معين جانوروں كي تحديد آئي هے۔ جن ميں سے بھينس نهيں هے۔ لهذا اگر حديث رسول ﷺ ميں صراحة مذكور بهيمة الانعام پر هي اكتفاء كيا جائے تو
بهتر هے۔ بالخصوص جب كه اكثر متقدمين نے بھينس كو گائے كے مثل زكاة كے حكم ميں قرار ديا هے۔ قرباني كے حكم ميں نهيں۔
قرباني ميں بھينس كو گائے كے حكم ميں قرار دينےكي صراحت سلف كے كلام ميں نادر
الوجود هے۔ گائے اور بھينس كا حكم زكاة ميں ايك جيسے هونے، اور قرباني ميں بھي هم
مثل هونے ميں جو فرق هے وه بالكل واضح هے۔ نيز بهيمة الانعام ميں بھينس كو شامل كرنے كي ان كي دليل محض قياس هے۔ البته اگر
كوئي ان كے دلائل سے مطمئن هو كر اس قول كو اختيار كرتا هے۔ تو اس پر ملامت نهيں كيا جائے گا۔
قرباني كے جانور كي عمر
حضرت جابر رضي الله عنه سے روايت هے۔ (لا
تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم ؛ فتذبحوا جذعة من الضأن) صحيح مسلم
كه مسنه كے سوا ذبح نه كرو۔ الا يه كه(اس كا حصول)
تم پر مشكل هو جائے۔ تو بھيڑ ميں سے جذعه ذبح كر لو۔ اور "مسنه " هر جنس
ميں سے "ثنيه" كو كهتے هيں۔
اونٹ ميں مسنه يا ثنيه اسے كهتے هيں۔ جو پانچ سال پورا
كر كے چھٹے سال ميں قدم ركھا هو۔
گائے ميں مسنه يا ثنيه جو دو سال مكمل هونے كے بعد
تيسرے ميں پهنچي هو۔
بكري جس نے ايك سال پورا كر كے دوسرا سال شروع كر
ديا هو، مسنه يا ثنيه كهتے هيں۔
اور
"جذعه" كهتے هيں جس نے چھ ماه مكمل كر ليا ۔ اور ساتواں ماه ميں
قدم ركھا هو۔ (انظر : بدائع الصنائع 5/70 ، المجموع 8/365 ، المغني
13/368)
علماء كا اس بات پر اتفاق هے كه جذعه ميں صرف بھيڑ
كا بچه هي قابل قبول هے۔ بكري يا دنبه وغيره ميں جذعه كافي نهيں هوگا۔ (التمهيد
لابن عبد البر)
حضرت براء بن عازب رضي الله عنه سے مروي هے كه ميرے
ماموں نے جنھيں ابو برده كها جاتا تھا،
نماز (عيد)سے پهلے قرباني كر دي۔ تو رسول الله ﷺ نے فرمايا: تمهاري بكري
(قرباني نهيں) گوشت كي بكري هے۔ تو انھوں نے كها: يا رسول الله! ميرے پاس بكري كا
ايك فربه جذعه موجود هے۔ جو دو مسنه كے برابر هے۔ كيا ميں اس كو (قرباني كے لئے)
ذبح كروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمايا: اسي كو ذبح
كر لو۔ اور يه (بكري كا جذعه) تمهارے بعد كسي كے لئے جائز نهيں هوگا۔ (متفق عليه)
واضح رهے كه بھيڑ ميں سے جذعه مطلقا جائز هے۔ خواه
بكري ميں سے مسنه هو يا نه هو۔ اور اس پر علماء كا اجماع هے۔ مگر مستحب يه هے كه
مسنه هي كو ترجيح دي جائے۔ (التلخيص لابن حجر 4/285 ، شرح صحيح مسلم للنووي، عون المعبود
للمباركفوري)
قرباني كے جانور كے اوصاف
موٹا تازه هو۔ خوبصورت اور سينگ والا هو۔ عيب دار
نه هو۔ اس كا رنگ اچھا هو۔ جيسا كه عام طور پر رسول الله ﷺ كے قرباني كے جانور هوا
كرتے تھے۔ آپ ﷺ كا پسنديده رنگ قرباني كے جانور ميں اكثرسفيد اور كالا مخلوط رنگ
هوا كرتا تھا۔ لهذا جو ديكھنے ميں بھي محبوب هو، اور گوشت كے اعتبار سے بھي بهتر
هو، اسي كي قرباني كريں۔
عيب دار جانور جن كي قرباني جائز نهيں
پاكيزه اور نفيس مال كو نفس قبول كرتا هے۔ لهذا
الله كے راستے ميں جو جانور پيش كيا جائے۔ وه نفيس اور پاكيزه هو۔ نيز اس كا گوشت
بھي نفيس اور لذيذ هو۔ جو ان دو مقصدوں كے
حصول ميں حائل هو۔ قرباني كے جانور كا ايسے
عيب سے خالي هونا ضروري هے۔
حضرت براء بن عازب رضي الله عنه سے روايت هے كه
رسول الله ﷺ نے فرمايا: (أربعة لا تجوز في الأضاحي المريضة البين مرضها والعوراء البين
عورها والعرجاء البين ضلعها والكبيرة أو الهزيلة أو العجفاء التي لا مخ فيها) أخرجه أبو
داوود في السنن وصححه الألباني من إرواء الغليل ( 1148 ) كه چار (عيب دار جانور)
قرباني ميں جائز نهيں هيں۔ بيمار، جس كي بيماري ظاهر هو۔ كاني، جس كا بھينگاپن
واضح هو۔ لنگڑي، جس كا ٹھيك سے نه چل پانا ظاهر هو۔ اور سن رسيده، كمزور يا لاغر
جس كے اندر گودا نه هو۔
درج ذيل چار عيوب هيں، جو قرباني سے مانع هيں:
1.
واضح بيماري: جس بيماري كے
آثار جاننور كے اندر بالكل ظاهر هو۔ مثلا ايسا بخار جس سے كھانا پينا چھوٹ جائے۔
يا واضح خارش يا زخم جو اس كي صحت اور گوشت
پر اثر انداز هو۔ وغيره
2.
واضح بھينگي: جس كي آنكھ دھنسي
هوئي هو۔ يا بٹن كي طرح ابھري هو۔ يا سفيدي صاف ظاهر هو۔ جس سے اس كا بھينگا پن
ظاهر هو جائے۔
3.
واضح لنگڑى: چلتے وقت لنگڑانا،
يا صحيح سے نه چل پانا واضح نظر آتا هو۔
4. كمزوري
يا سن رسيده: بوڑھي كھوسڈ يا كمزوري جس كے سبب اس كي هڈيوں ميں گودا نه هو۔
ان كے مشابه يا ان سے زياده جو علتيں هيں۔ وه
بھي ان ميں شامل هيں۔ مثلا:
1.
اندھي جو ديكھنے سے معذور
هو۔
2.
جو خطرناك حد تك كھا لے۔
جب تك اس سے خطره نه ٹل جائے۔
3.
ولادت كي مشقت ميں هو۔ جب
تك اس سے مشقت دور نه هو جائے۔
4.
گلے ميں پھنده يا اونچائي سے گرنا يا كسي سبب سے قريب المرگ هو۔
جب تك يه حالت زائل نه هو جائے۔
5.
كھڑا هونے سے عاجز هو اور
بالكل بيٹھ گئي هو۔
6.
ايك هاتھ يا ايك پير كٹا
هوا هو۔
وه عيب جو كراهت كے ساتھ جائز هيں
اگر كوئي معمولي عيب اس طرح هے كه وه بالكل ظاهر نه
هو۔ نه اس كي صحت يا گوشت پر زياده اثر انداز هو، تو افضل يه هے كه اس كي جگه
دوسرا جانور بدل ديا جائے۔ ورنه كراهت كے
ساتھ اس كي قرباني جائز هے۔
شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے ايسے عيوب كا ذكر كيا
هے۔ جو كراهت كے ساتھ جائز هيں۔ ان ميں سے نو كي كراهت پر صريح نص موجود هے۔ اور
ان سے قياس كرتے هوئے مزيد چار حالات هيں۔ ان كا خلاصه درج ذيل هے:
حضرت على رضي الله عنه سے مروي هے۔ كه رسول الله
صلى الله عليه وسلم نے هميں حكم ديا: أن نستشرف العين والأذن ، وأن لا نضحي
بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء ( رواه الخمسة ،وقال الترمذي :حسن صحيح ) كه هم (قرباني كے جانور كے) آنكھ اور كان اچھي
طرح ديكھ بھال ليں۔ اور يه كه هم مقابله
مدابره شرقاء اور خرقاء كي قرباني نه كريں۔
اس حديث كو ابن حبان حاكم بيهقي بزار رحمهم الله نے
بھي بيان كيا هے۔ دارقطنى نے اسے معلول
قرار ديا هے۔ عظيم آبادي رحمه الله نے عون المعبود ميں امام بخاري رحمة الله عليه
سے نقل كيا هے كه اس كا مرفوع هونا ثابت نهيں هے۔ والله اعلم
1.
العضباء : وه جانور جس كا كان كٹا پھٹا،يا سينگ ٹوٹا هو۔ حضرت على بن أبي
طالب رضي الله عنه نبي صلى الله عليه وسلم سے روايت كرتے هيں كه: آپ ﷺ نے كان كٹے
يا سينگ ٹوٹے جانور كي قرباني سے منع
فرمايا۔ قتاده نے كها: ميں نے سعيد بن
المسيب سے اس كا ذكر كيا تو انھوں نے فرمايا: اگر كان كٹا يا سينگ ٹوٹا نصف
يا زياده هو، تو وه اس (ممنوعات) ميں سے هے۔(اصحاب السنن، وقال
الترمذي حسن صحيح)
جري بن كليب جس
سے فقط قتادة نے روايت كي هے۔ امام أبو
حاتم رحمة الله عليه نے كها : لا يحتج به
نيز الفروع ميں فرمايا: وفي صحة الخبر نظر
شيخ ألباني رحمه الله نےالإرواء (1149) ميں فرمايا: منكر
۔
اگر پيدائشي
طور پر سرے سے كان يا سينگ موجود هي نه هو۔ تو بغير كراهت كے جائز هے۔
2.
المقابلة: وه جانور جس كا كان كا اگلا
حصه عرض ميں كٹا هو۔
3.
المدابرة: وه جانور جس كا كان كا پچھلا
حصه عرض ميں كٹا هو۔
4.
الشرقاء: وه جانور جس كا كان طول
ميں كٹا هو۔
5. الخرقاء: وه جانور جس كا
كان مطلقا كٹا هو۔
حضرت عتبه بن عبد السلمي رضي الله عنه سے مروي هے: إنما نهى رسول الله صلى
الله عليه وسلم عن المصفرة والمستأصلة والبخقاء والمشيعة ، والكسراء(رواه أحمد
وأبو داود والبخاري في تاريخه، وقال الحاكم: صحيح الإسناد ولم يخرجاه) كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے هميں مصفره
، مستاصله، بخقاء، مشيعه اور كسراء (كي قرباني) سے منع فرمايا۔
6.
المصفرة: جس كا كان سرے سے غائب هو گيا هو، يهاں تك كه اس
كے كان كي سوراخ نظر آ رهي هو۔
7.
المستأصلة: جس كا سينگ معدوم هو گيا
هو۔
8.
البخقاء: جس كي آنكھ تو هے۔ مگر بصارت زائل هو گئي هے
(النهاية) القاموس المحيط وغيره نے "بخق" كو "عور" كي بد ترين شكل قرار ديا هے۔ اگر
يه "عور بين" كي حد تك هو۔ تو اس كي قرباني جائز نهيں هے۔ ورنه كراهت كے
ساتھ جائز هے۔
9.
المشيعة: جو كمزور ولاغر هونے كے سبب پيچھے ره جائے۔ اگر
اتني لاغر هے كه اس كي هڈيوں ميں گودا هي نهيں هے۔ تو اس كي قرباني جائز نهيں هے۔
اگر اس كي هڈيوں ميں گودا هے۔ مگر بھگانے كے با وجود بكريوں كي جماعت تك نه پهونچ
سكے۔ تو بھي جائز نهيں هے۔ كيوں كه ايسے ميں وه (واضح لنگڑي) كے مشابه هے۔ البته اگر مار پيٹ كر بھگانے سے بكريوں كي جماعت
ميں مل جائے۔ تو اس كي قرباني كراهت كے
ساتھ جائز هے۔
الكسراء: وه جانور جو
اتنا كمزور هو كه اس كي هڈيوں ميں گودا هي نه هو۔ ايسے جانور كي قرباني جائز نهيں هے۔ عدم جواز كے ضمن ميں اس
كا ذكر گزر چكا هے۔
يه نو قسم كے جانوروں كي كراهت مذكوره دونوں حديثوں
كےنص سے ثابت هے۔ جواز مع الكراهه اس لئے كيوں كه حديث براء ميں عدم جواز كي قسميں
آ گئي هيں۔ لهذا باقي اقسام كے عيوب كراهت كے ساتھ هي سهي مگر جائز هيں۔ امام
ترمذي كے تبويب سے بھي اسي كي تائيد هوتي هے۔
علامه ابن عثيمين رحمه الله نےجائز مع الكراهه كے
ان قسموں پر قياس كر تے هوئے مزيد چار انواع بيان كئے هيں:
10. البتراء: وه جانور جس كا دم كٹا هوا هو۔ عضباء پر قياس
كرتے هوئے يه بھي مكروه هے۔ اگر پيدائشي طور پر كٹا هو تو كوئي حرج نهيں۔ دنبه كے
دم سے اتنا كاٹا گيا هو كه نصف يا اس سے زياده باقي هو، تو بھي كوئي حرج نهيں۔ اگر
آدها سے زياده يا پورا كاٹ ديا جائے۔ تو پھر اس كي قرباني جائز نهيں۔ شوافع كا بھي
يهي قول هے۔
11.
ما قطع ذكره: جس جانور كا ذكر كاٹ ديا گيا هو۔ عضباء پر قياس
كرتے هوئے يه بھي مكروه هے۔ برخلاف خصي كے۔ كيوں كه رسول الله ﷺ نے خصي كي قرباني
كي هے۔
12.الهتماء: جس كے بعض يا سارے دانت ٹوٹ گئے هوں۔ اور اگر پيدائشي
دانت نه هوں تو كوئي حرج نهيں هے۔
13.
ما قطع شيء من حلمات ضرعها: جس جانور كے تھن
يا اس كا بعض حصه كٹا هوا هو۔
مذكوره كل تيره اقسام كے عيوب هيں۔ جو كراهت كے ساتھ
جائز هيں۔ والله اعلم بالصواب
(ملخص من تفريغ كتاب أحكام الأضحية والذكاة للشيخ
محمد بن صالح العثيمين رحمه الله)
جانور كا خصي هونا
جانور كے خصي كرنے كے جواز پر علماء كا اتفاق هے۔
كيوں كه اس سے اس كو كوئي نقصان نهيں پهونچتا هے۔ بلكه وه فربه موٹا تازه هو جاتا
هے۔ اور اس كا گوشت لذيذ هو جاتا هے۔ مگر كيا قرباني كے جانور ميں خصي هونا عيب هے؟!
ظاهري طور پر تو يه عيب كے قبيل سے هے۔ مگر رسول
الله ﷺ سے خصي كي قرباني ثابت هے۔ حضرت ابو رافع رضي الله عنه سے روايت هے: ( ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجِيَّيْنِ
خَصِيَّيْنِ
) (مسند أحمد (23348) وصححه الألباني في الإرواء 4/360) كه رسول الله ﷺ نے دو چتكبرے خصي مينڈھوں كي
قرباني كي۔
اسي لئے بعض علماء نے خصي كو افضل قرار ديا هے۔ مگر
اس كي كوئي وجه نهيں هے۔ كيوں كه رسول الله ﷺ نے غير خصي كي قرباني بھي كي هے۔
حضرت ابو سعيد رضي الله عنه فرماتے هيں: (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ ، يَنْظُرُ فِي سَوَادٍ
وَيَأْكُلُ فِي سَوَادٍ وَيَمْشِي فِي سَوَاد) روى أبو داود (2796)
والترمذي (1496) صححه الألباني( كه رسول الله ﷺ سينگ والے
فحل (غير خصي) مينڈھے كي قرباني كرتے تھے۔ جس كي آنكھ منه اور پيروں ميں سياهي (چتكبرا) هوتي تھي۔
نيز حضرت نافع سے روايت هے كه حضرت عبد الله بن عمر
رضي الله عنهما نے ايك بار مدينه ميں قرباني كي۔ نافع نے كها: فَأَمَرَنِي أَنْ
أَشْتَرِيَ لَهُ كَبْشًا فَحِيلًا أَقْرَنَ ، ثُمَّ أَذْبَحَهُ يَوْمَ الْأَضْحَى
فِي مُصَلَّى النَّاسِ" (مالك في الموطا (1043) كه مجھے حكم ديا كه ميں ايك
سينگ والا غير خصي مينڈھا خريدوں۔ پھر اسے عيدگاه ميں قرباني كے دن ذبح كروں۔
اسي لئے امام ابن عبد البر رحمه الله فرماتے هيں:
سينگ والا غير خصي مينڈھا امام مالك اور اكثر اهل علم كے نزديك ديگر جانوروں سے افضل هے۔ (الاستذكار
لابن عبد البر 5/ 220)
جب كه امام شوكاني خصي وغير خصي دونوں كو برابر
قرار ديتے هيں۔ (نيل الأوطار 5/ 142)
اگر قرباني كا جانورضائع هو جائے
اگر كسي شخص كا قرباني كا جانورگم هو جائے، چوري هو
جائے يا مر جائے۔ اور اس ميں اس شخص كا افراط وتفريط نه هو۔ تو كوئي حرج نهيں هے۔
نه اس كا بدله هے۔ نه اس كي قيمت وغيره كچھ واجب هے۔ (المغني 9/353
، الإنصاف" للمرداوي 4/71)
البته اگر اس شخص كا اس جانور كے تلف هونے ميں لا پرواهي
يا كوئي دخل پايا جاتا هے۔ تو اس كي قيمت كے مقدار اس پر صدقه كرنا ضروري هے۔ كيوں
كه قرباني كا جانور متعين هونے كے بعد وه وقف كے حكم ميں آ جاتا هے۔ جو اس شخص كے پاس
امانت هوتا هے۔ لهذا اس كا حكم وقف كا هي حكم هوگا۔ (المغني 9/352)
اسي لئے اس كے گوشت يا جلد كو اپنے مفاد كے لئے بيچنا، يا اس جانور كے گوشت
يا جلد كو قيمت كے طور پر ذبح كرنے والے كو دينا جائز نهيں هے۔
اگر قرباني كے جانور كا عيب دار هو جائے
جانور كو قرباني كي نيت سے خريدنے۔ يا اپنے ريوڑ كے
جانوروں ميں سے كسي ايك كي تخصيص كر لينے سے وه جانور متعين هو جاتا هے۔ اگر خريدنے يا متعين كرنے سے پهلے سے هي عيب دار هے۔
تو اس كا بدلنا ضروري هے۔ اور اگر بعد ميں عيب دار هو جاتا هے۔ تو اگر اس شخص كي
لا پرواهي يا كسي طرح كا دخل اس عيب ميں هے۔ تو اس كا بدلنا واجب هے۔ ورنه اسي
حالت ميں قرباني كرنا جائز هے۔ اور اس كي قرباني صحيح هو جائے گي۔ اسي كو عطاء،
حسن، نخعي، زهري، ثوري، مالك، شافعي اور اسحاق رحمهم الله وغيرهم نے اختيار كيا هے۔
(ديكھئے: مجموع الفتاوى 26/304 فتاوى
اللجنة الدائمة 11/402 المغني13/373)
حضرت ابن الزبير رضي الله عنه كي هديوں (حج كي
قرباني) ميں ايك بھينگي اونٹني لائي گئي۔ تو آپ نے فرمايا: اگر اسے تمهارے خريدنے
كے بعد ايسا لاحق هوا هے۔ تو (قرباني) كر گزرو۔
اور اگر تمهارے خريدنے سے پهلے سے لاحق هے۔ تو اسے بدل دو۔ (سنن البيهقي) امام
نووي رحمه الله نے اس كي سند كو صحيح قرار ديا هے۔ (المجموع 8 /328)
قرباني كے جانور كو بيچ كر اس كي قيمت كو
صدقه كرنا
قرباني اسلامي شعائر ميں سے هے۔ اس پر عمل اور اس
كا اظهار هونا چاهئے۔ استطاعت هونے كے باوجود اس كے ترك كرنے پر وعيديں آئي هيں۔ مگر
بعض سلف سے قرباني كے بجائے اس كي قيمت كو صدقه كرنا وارد هوا هے۔ شيخ محمد ابن
عثيمن رحمه الله نے فرمايا :
قرباني كے جانور كو ذبح كرنا اسے بيچ كر اس كي قيمت
كو صدقه كرنے سے افضل هے۔ كيوں كه يهي رسول الله ﷺ اور آپ كے ساتھ مسلمانوں كا عمل هے۔ اس لئے بھي كه
قرباني كو ذبح كرنا الله كے شعائر ميں سے هے۔ اگر لوگوں نے اس كي قيمت كو صدقه
كرنا شروع كر ديا، تو يه شعيره هي معطل هو جائے گا۔ اور اگر ايسا كرنا افضل هوتا تو خود رسول الله ﷺ اپنے
قول يا فعل سے لوگوں پر يه واضح كر ديتے۔ كيوں كه آپ ﷺ خير كي باتيں امت كو بتانے
سے هرگز نهيں چوكتے تھے۔ بلكه اگر قيمت كا صدقه كرنا قرباني كرنے كے مساوي هوتا۔
تو بھي بيان كر ديتے۔ كيوں كه قرباني سے زياده سهل صدقه كرنا هے۔ اور آپ ﷺ هميشه
سهل كو پسند كرتے تھے۔
بالخصوص جب كه اس وقت لوگوں ميں فقر وفاقه كي وجه سے
صدقه كي زياده ضرورت تھي۔ اسي لئے آپ ﷺ نے فرمايا: تم ميں سے جس نے قرباني كي هو،
تيسرے دن كے بعد اس كے گھر ميں اس قرباني ميں سے كچھ نهيں بچنا چاهئے۔ پھر جب
دوسرا سال آيا تو لوگوں نے كها: يا رسول الله! كيا هم ويسے هي كريں جيسا گزشته سال
كيا تھا؟ تو آپ ﷺ نے فرمايا: كھاؤ كھلاؤ
اور ذخيره اندوزي بھي كرو۔ كيوں كه گزشته سال لوگوں ميں (فقر وفاقه كي) مشقت تھي۔
تو ميں نے چاها كه تم ان كي مدد كرو۔ (متفق عليه)
امام ابن القيم رحمه الله نے فرمايا: قرباني كے
جانور كواس كے موقعے پر ذبح كرنا اس كي
قيمت كو صدقه كرنے سے افضل هے۔ نيز فرمايا: اسي لئے حج تمتع يا حج قران كي قرباني
كي جگه اگر اس كے كئي اضعاف قيمت صدقه كرے۔ تو بھي اس كا قائم مقام نهيں بن سكتا۔
اسي طرح (اضحى كي) قرباني بھي هے۔ (ملخص
من رسالة أحكام الأضحية والذكاة للشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
قرباني كے جانور كو بيچ كر اس كي قيمت سے
علاج ومعالجه كرانا
اگر كوئي علاج ومعالجه كا شدت سے محتاج هو۔ يا
كسي كا قرض فوري واجب الادا هو۔ تو ايسي صورت ميں قرباني كے جانور كو بيچ كر ان
معاملوں ميں خرچ كيا جا سكتا هے۔ بلكه بعض حالات ميں اس كي اهميت زياده هے۔ (مجموع
فتاوى ورسائل ابن عثيمين 13 /1496)
سويد بن غفله كهتے هيں كه ميں نے حضرت بلال رضي
الله عنه كو فرماتے هوئے سنا كه: مجھے قرباني كي قيمت كو يتيموں اور بے كسوں پر
صدقه كر دينا قرباني كرنے سے زياده پسند هے۔
(مصنف عبد الرزاق 8156)
قرباني كے جانور ميں شراكت
اونٹ اور گائے ميں سات سات كي شراكت پر اكثر علماء
كا اتفاق هے۔ نيز حج وعمره ميں صحابۀ كرام رضوان الله عليهم اجمعين سے اس طرح كي
شراكت ثابت هے۔
حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه سے روايت هے۔
انھوں نے فرمايا : نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ،
وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ (صحيح مسلم 1318) كه هم نے رسول الله ﷺ كے ساتھ قرباني كي،
حديبيه كے سال، اونٹ سات كي طرف سے، اور گائے
سات كي طرف سے۔
انھيں كي روايت ابو داوود ميں هے كه هم نے رسول
الله ﷺ كے ساتھ حج كيا۔ تو اونٹ كو سات كي طرف سے نحر كيا۔ اور گائے كو سات كي طرف
سے۔ (سنن أبو داود 2808)
ايك اور
روايت ميں فرماتے هيں۔ كه نبي ﷺ نے فرمايا: الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْجَزُورُ
- أي : البعير - عَنْ سَبْعَةٍ (صححه الألباني في صحيح أبي داود
) كه گائے سات كي طرف سے هے۔ اور جزور يعني اونٹ سات كي طرف سے۔
امام نووي رحمه الله نے فرمايا: ان حديثوں ميں هدي
(حج كي قرباني) ميں شركت كے جواز كي دليل هے۔ جب كه بكري ميں شركت كے عدم جواز پر
ان كا اجماع هے۔ اور ان حديثوں ميں يه بھي هے۔ كه اونٹ سات لوگوں كي طرف سے، اور گائے
سات لوگوں كي طرف سے كافي هے۔ اور ان دونوں (اونٹ اور گائے) ميں سے هر ايك سات عدد بكري كے قائم مقام هے۔ يهاں تك كه اگر كسي محرم
پر شكار كا جزاء كے علاوه سات عدد دم هو، تو ايك اونٹ يا ايك گائے ذبح كرے تو سب
كي طرف سے كافي هو جائے گا۔ (شرح صحيح مسلم)
لجنه دائمه كي طرف سے كها گيا هے۔ كه اونٹ اور گائے ميں سات كي طرف سے كفايه هوگا۔ خواه وه
ايك هي گھر سے هوں۔ يا مختلف گھروں سے۔ خواه وه آپس ميں ايك دوسرے كے رشته دار هوں
يا نهيں۔ اس لئے كه رسول الله ﷺ نے صحابۀ كرام كو اونٹ اور گائے ميں شراكت كي
اجازت عطا كي۔ هر سات شخص كو ايك (اونٹ يا گائے) ميں۔ اور اس كي كوئي تفصيل بيان
نهيں فرمائي۔ (فتاوى اللجنة الدائمة 11/401)
ايك حصے ميں كسي كو شريك كرنا
سات حصوں ميں سے ايك حصے كا حقدار اگر اپنے آدھے حصے
ميں كسي كو شريك كرنا چاهے۔ تو ان دونوں كي قرباني نهيں هوگي۔ كيوں كه ساتواں حصه ايك بكري كے قائم مقام هے۔
اور ايك بكري ميں دو شخص كي قرباني نهيں هو سكتي۔ جب كه باقي كے چھ لوگوں كي
قرباني پر كوئي اثر نهيں پڑے گا۔ اور اگر سات سے كم شريك هيں۔ جس سے پورے حصے اثر
انداز هوتے هوں۔ تو سب كي قرباني متاثر هوگي۔ (رساله أحكام الأضحية للشيخ ابن
عثيمين رحمه الله)
مشتركه جانور ميں الگ الگ نيت
ايك اونٹ يا ايك گائے اس طرح هے۔ جيسے سات بھيڑ يا
سات بكرياں هوں۔ ان ميں كچھ قرباني كي نيت
سے، كچھ فديه كي نيت سے اور كچھ گوشت كي نيت سے بھي شركت كر سكتے هيں۔ اور اس ميں
كوئي حرج نهيں هے۔ (رساله أحكام الأضحية للشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
مشتركه جانور كا سات حصه هونا ضروري نهيں
اونٹ يا گائے ميں زياده سے زياده سات لوگ شركت كر
سكتے هيں۔ تو جب سات تك شراكت جائز هے۔ تو اس سے كم بدرجه اولى جائز هے۔ بلكه يه
زياده بهتر اور كار خير هے۔ يه ايسے هے
جيسے واجب تو ايك بكري هے۔ مگر كوئي اونٹ يا گائے كي قرباني دے رها هے۔ اسي طرح
واجب تو اونٹ يا گائے كا ساتواں حصه تھا۔ مگر وه
چوتھا يا پانچواں حصه دے رها هے۔ اور يه واجب سے كهيں زياده ادا كرنا هے۔
جو كه افضل هے۔ (الأم للشافعي 2/244 بدائع
الصنائع للكاساني 5/71)
قرباني كا وقت
دسويں ذي الحجه يوم النحر هے۔ عيد كي نماز كے بعد
قرباني كا وقت شروع هو جاتا هے۔ حضرت براء بن عازب رضي الله عنه سے روايت هے كه
رسول الله ﷺ نے عيد اضحى كے روز نماز كے بعد هميں خطاب فرمايا: مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا، فَقَدْ
أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلاَةِ وَلاَ نُسُكَ لَهُ (صحيح البخاري
926) كه جس نے همارے ساتھ نماز پڑھي، اور همارے ساتھ قرباني كي، اس كي قرباني درست
هوئي۔ اور جس نے نماز سے پهلے قرباني كي۔ اس كي نماز تو هو گئي۔ مگر اس كي قرباني
نهيں هوئي۔
اگر كهيں عيد كي نماز كسي وجه سے نه هوتي هو۔ تو
وهاں سورج كے بلند هو جانے كے بعد ذبح كرنا جائز هے۔ اور تيرھويں ذي الحجه كي مغرب
تك باقي رهتا هے۔ يعني قرباني كے كل چار ايام هيں۔ يهي جمهور علماء كا قول هے۔ رسول الله ﷺ نے فرمايا: كل منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح (السلسلة
الصحيحة (2476) كه پورا منى قرباني گاه هے۔ اور تشريق كے تمام دن ذبح كرنے كے هيں۔
امام ابن القيم رحمه الله نے فرمايا: كه يهي حسن
بصري، عطاء بن ابي رباح ، اوزاعي اور امام
شافعي رحمهم الله كا مذهب هے۔ اور ابن المنذر نے اسي كو اختيار كيا هے۔ (زاد
المعاد 2/319)
فتاوى لجنه دائمه ميں هے كه: حج تمتع اور حج قران كي هدي، اور اضحى كي قرباني كو ذبح كرنے كے چار دن هيں۔ عيد كا دن
اور اس كے بعد كے تين دن۔ اور اهل علم كےصحيح قول كے مطابق چوتھے روز كے لئے سورج
غروب هونے پر ذبح كا وقت ختم هو جاتا هے۔ (فتاوى
اللجنة الدائمة 11/406)
قرباني كے لئےوقت موسع هونے كے با وجود جلد قرباني
كرنا مستحب هے۔ حضرت بريده رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ عيد فطر كے روز
(عيد گاه) نه جاتے۔ حتى كه كچھ كھا ليتے۔ اور عيد اضحى كے روز كچھ نهيں كھاتے، حتى
كه (عيد گاه سے) واپس آتے۔ پھر اپني قرباني ميں سے كھاتے۔
شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے فرمايا:
يوم النحر كو عيد كي نماز كے بعد سے ايام تشريق كے
تيسرے دن سورج غروب هونے سے پهلے تك قرباني كو ذبح كرنے كا وقت هے۔ اگر كسي نے عيد
كي نماز سے قبل ذبح كيا تو اس كي قرباني صحيح نهيں هوئي۔ اسي طرح ايام تشريق كےتيسرے روز غروب كے بعد ذبح كرنے سے قرباني صحيح نهيں هوگي۔ ليكن اگر
اس تاخير كے لئے كوئي عذر هے۔ مثلا جانور بھاگ گيا هو، يا وكيل بھول گيا هو، تو
وقت گزرنے كے بعد بھي قرباني صحيح هو جائے گي۔ جس طرح نماز سےسو جانے والا يا بھول
جانے والا جب بيدار هو يا ياد آ جائے پڑھ لے۔
اسي طرح وقت مذكور كے اندر دن هو يا رات كسي بھي
وقت ذبح كرنا جائز هے۔ البته دن ميں بهتر هے۔ اسي طرح عيد كے دونوں خطبوں كے بعد
افضل هے۔ اور هر دن آنے والے دن سے افضل هے۔ كيوں كه اس ميں كار خير ميں مبادره كا
پهلو هے۔ (رساله أحكام الأضحية للشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
قرباني كرنے كا طريقه
قرباني كا جانور خود ذبح كرنا
عورت كے لئے قرباني كا جانور ذبح كرنا
قرباني كے وقت دعاء
ذبح كے وقت قرباني كرنے والے كا نام لينا
ايك بكري يا ايك حصه پورے گھر والوں كي طرف
سے كافي
والدين سے الگ رهنے والے بيٹےكي ايك قرباني
سب كي طرف سےكافي نهيں
قرض كي ادائيگي يا قرباني
قرض كے پيسے سےقرباني
قرباني كا گوشت
قرباني كا گوشت تين حصوں ميں تقسيم كرنا
غير مسلم كو قرباني كا گوشت دينا
قرباني كا گوشت تين دن سے زياده ركھنا
از رشحات قلم
عبد الله الكافي
المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات
دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور
واوقاف سعودي عرب
بتاريخ: 09/ شعبان
۱۴۲6 ھ موافق: 12 / ستمبر 2005ء بروز سوموار