عشر ذي الحجه اور قرباني


عشر ذي الحجه اور قرباني


مقدمہ
یوں تو دن ورات ، ہفتے ومہینے اورسال سب کچھ اللہ تعالے کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔مگر ان میں چند اوقات ایسے ہیں، جن کی اہمیت وفضیلت ان کے شایان شان عمل کے لحاظ سے خود اللہ تعالے اور اس کے رسول ﷺ نے بیان کئے ہیں۔ جیسے روزوں کے لئے رمضان کی فضیلت، قربانی کے لئے یوم النحرکی فضیلت، تسبیح وتہلیل ذکر ونوافل اور تلاوت کے لئے لیلۃ القدر کی فضیلت وغیرہ۔اگر ان لمحوں میں انھیں اعمال کو انجام دیا گیا، تو بلاشک ان کی فضیلتوں اور اضافی اجر کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر شایان شان عمل کی رعایت نہ کی گئی، تو عمل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ جیسے یوم النحر میں روزہ رکھ لینا بجائے اجر کے حبط عمل کا موجب ہے۔ جب کہ اس دن قربانی کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔

فضائل عشر ذی الحجہ
اسی طرح اسلامی سال کا آخری مہینہ ذو الحجہ، جو کہ شہر الحج بھی ہے کی فضیلت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ للہ تعالے کا ارشاد ہے : ( والفجر ولیال عشر) قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ( الفجر ۱ و ۲ ) راتوں کا ذکر کیا گیا ہے، مگر یہ فضیلتیں ان راتوں کے دنوں میں بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ اس کی تصریح مختلف روایتوں میں ملتی ہے۔ابن کثیر ؒ نے تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ... ان دس راتوں سے مراد عشر ذی الحجہ ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ اور اس کی روایت حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے .... ( تفسیر القرآن العظیم )
نیز اللہ تعالے کا فرمان ہے : (( ویذکروا اسم الله في أیام معلومات)) اوران مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ( الحج ۲۸ ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ معلوم دن عشر ذو الحجہ ہیں ( تفسیر القرآن العظیم)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالے عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (( ما من أیام العمل الصالح فیهن أحب إلی الله من هذہ الأیام العشر، قالوا ولا الجهاد فی سبیل الله ؟ قال: ولا الجهاد فی سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم یرجع من ذلك بشيء)) عشر ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے، جس میں عمل صالح اللہ تعالے کو اتنا زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہ ہی اللہ کے راستے میں جہاد، سوائے اس آدمی کے، جو اپنے نفس اور اپنے مال کے ساتھ ( اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے ) نکلا، اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہیں آیا ( رواہ البخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (( ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب الیه العمل فیهن من هذہ الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید))  ان ( عشر ذی الحجہ ) کے سوا کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل اللہ سبحانہ کے نزدیک اتنا زیادہ عظیم اور اتنا زیادہ محبوب ہو۔ اس لئے ان میں زیادہ سے زیادہ تہلیل تکبیر اور تحمید کیا کرو ( رواہ احمد)
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر ذوالحجہ کے امتیاز کا سبب یہ ہے کہ اس مہینے میں امہات العبادات جمع ہو گئے ہیں، اور وہ نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ہیں، جو ذی الحجہ کے علاوہ باقی کسی دوسرے مہینے میں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے ( دیکھئے فتح الباری)

ان دنوں کے اعمال
نماز كا اهتمام
فرض نمازوں کا شدت سے با جماعت اہتمام کرنا، مسجدوں میں جلدی پہونچنا، سنتوں کو پابندی سے ادا کرنا اور نوافل وغیرہ کثرت سے پڑھنا۔ کیوں کہ اللہ تعالے کی قربت کا سب سے افضل طریقہ نماز ہی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (( عليك بکثرۃ السجود لله، فإنك لا تسجد لله سجدۃ إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بہا خطيئة )) اللہ کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدہ کو اپنے اوپر لازم پکڑو، کیوں کہ اگر تم ایک ہی سجدہ اللہ کے لئے کرو، تو اللہ تعالے اس کے عوض تمہارا ایک درجہ بلند کریں گے، اور ایک گناہ مٹادیں گے (رواہ مسلم ) واضح رہے کہ یہ کسی بھی زمان ومکان کے لئے عام ہے۔

روزہ  
کیوں کہ یہ بھی ایک عظیم عبادت ہے۔ حضرت ھنیدہ بن خالد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اپنی بیوی سے، وہ روایت کرتی ہیں بعض امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم اجمعین سے کہ (( کان رسول الله یصوم تسع ذی الحجۃ ویوم عاشوراء وثلاثة أیام من کل شهر )) رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نویں ذی الحجہ، یوم عاشوراء اور ہر مہینے کے تین دن روزہ رکھا کرتے تھے (رواہ احمد وابوداوود والنسائی ) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذی الحجہ کے ان دنوں میں روزہ رکھنا شدت کے ساتھ مستحب ہے۔

عرفہ کے دن کا روزہ 
جو حج میں نہ ہوں ان کے لئے عرفہ کے دن روزہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (( أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ )) مجھے اللہ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوگا ( رواہ مسلم ) یہ فضیلت عرفہ کے دن کے روزہ کا ہے، خواہ اختلاف زمان ومکان کے سبب تاریخ جو بھی ہو۔ جس دن حاجی لوگ عرفہ میں وقوف کریں اسی دن کا اعتبار ہوگا۔ نیز یہ روزہ ان کے لئے مستحب نہیں، جو عرفہ میں حج کے ارادہ سے وقوف کی حالت میں ہوں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت افطار عرفہ کا وقوف فرمایا تھا۔ 

تکبیر اتتکبیر وتہلیل اور تحمید
کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (( ...  فأکثروا فیہن من التہلیل والتکبیر والتحمید)) کہ ان دنوں میں بکثرت تہلیل تکبیر اور تحمید کیا کرو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازاروں میں نکلتے تھے، اور لوگ انھیں سن سن کر تکبیر کہتے تھے۔ نیز فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منی میں اپنے خیمے کے اندر تکبیرات کہتے ، جسے سن کر اہل مسجد بھی تکبیرات کہتے تھے۔ یہاں تک کہ بازاروں میں بھی لوگ تکبیرات کہتے، جس سے منی گونج اٹھتا تھا۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی منی میں ان دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے، بالخصوص نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر، بیٹھک میں ، مجلس میں اور راہ چلتے ہوئے ان تمام دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے۔ ان تکبیرات کو بلند آواز سے کہنا مستحب ہے، جیسا کہ حضرت عمر ، عبد اللہ ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل تھا۔ممکن ہے غافلوں کو سن کر یاد آ جائے، اور وہ بھی تکبیرات پڑھنے لگیں۔
يوں تو تکبیرات کے لئے کوئی خاص صیغہ یا لفظ ضروری نہیں ہے۔ تاہم سلف سے کئی طرح کے الفاظ منقول ہیں۔ جن ميں سےيه بھي هيں :
۱- الله أکبر، الله أکبر، الله أکبر کبیرا
۲- الله أکبر، الله أکبر، لا إله إلا الله ، والله أکبر، الله أکبر ولله الحمد
۳- الله أکبر، الله أکبر، الله أکبر، لا إله إلا الله ، والله أکبر، الله أکبر، الله أکبر ولله الحمد.

قربانی 
قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر آخر یوم تشریق یعنی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔قربانی کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالے قربانی کرنے والے کو بخش دیتے هيں۔ جانور کے ایک ایک بال کے عوض قربانی کرنے والے کو نیکیاں ملتی ہیں۔ تفصیل کے لئے دوسری کتابوں کی جانب رجوع کریں۔

قرباني كا اراده هو تو بال اور ناخن نه تراشنا
بال اور ناخن نه تراشنا ان كے لئے مشروع هے٬ جو قرباني كا اراده ركھتے هوں۔ چنانچه حضرت ام سلمه رضي الله عنها بيان كرتي هيں كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: « إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره ». رواه مسلم في صحيحه في كتاب الأضاحي.

حضرت أم سلمه رضي الله عنها سے روايت هے كه نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: "جب تم ذي الحجه كا چاند ديكھ لو٬ اور تم ميں سے كوئي قرباني كرنے كا اراده ركھتا هو٬ تو اپنے بال اور ناخن كو چھوڑے رهے" اسے امام مسلم نے روايت كيا هے۔قرباني خواه اپنے آس پاس هو٬ يا سعودي ميں رهتے هوئے اپنے وطن ميں اهل وعيال كے ساتھ مشتركه قرباني كا اراده هو٬ چوں كه اس كا اراده قرباني كرنے كا هي هوا۔ اس لئے ذي الحجه كا چاند نظر آنے كے بعد سے نماز عيد تك بال كاٹنے يا ناخن تراشنے سے ركا رهے۔ اور يه سنت هے۔ اگر كوئي اس پر عمل كتا هے۔ تو اسے ثواب ملے گا۔ جب كه اس كے ترك پر كوئي عقاب نهيں۔ البته چوں كه يه همارے زمانے ميں سنن مهجوره ميں شامل هو گيا هے۔ لهذا اس سنت كو زنده كرنے كے لئے عمل ضرور كرنا چاهئے۔

عجيب وغريب بات يه هے كه كچھ مقامات پر قرباني كرنے والے تو اس پر عمل نهيں كرتے۔ اور قرباني نه كرنے والے يه سوچ كر اس پر عمل كرتے هيں٬ كه اس سے قرباني كا ثواب مل جائے گا۔ جب كه اس كي كوئي دليل نهيں هے۔ والله اعلم.

 اللہ تعالے ہم سبھوں کو ان اعمال کے بجا لانے کی توفیق دے۔

عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم بقسم الجاليات تيماءسعودي عرب