والدين كے حقوق
حضرات ! كتاب وسنت كے نصوص ميں والدين كا مقام
ومرتبه ان كے حقوق اور أولاد پر ان كے ساتھ بر واحسان كے احكامات بھرے پڑے هيں۔
عملي دنيا ميں اس كي نظيريں كم هي ملتي هيں۔
يهي وجه هے كه بهت سے والدين مظلوم يا افسرده خاطر اپني أولاد سے نالاں وپريشاں
كهيں بھي مل جاتے هيں۔ ايسے ميں ضرورت هے كه ان احكامات كو اجاگر كيا جائے۔ تاكه
اس سمت ميں هم اپني كوتاهيوں كا ادراك كر
سكيں۔
هر شئ
كا پيدا كرنے والا اور حقيقي خالق الله سبحانه هے۔ جس نے كائنات ميں وجود
بخشنے كے لئے مختلف ذرائع استعمال كئے هيں۔ كاشتكار زمين ميں دانے بكھيرتا هے تو پودے
اگتے هيں۔ اس اعتبار سے كاشتكار ذريعه اور سبب هے دانوں كے پيدا هونے كا۔ دانوں كو
پھاڑ كر حقيقي خالق الله سبحانه ان سے پودوں كو پيدا كرتا هے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ يُخْرِجُ
الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ
فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ (سورة الأنعام: ٩٥) بےشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور
گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے، وه جاندار کو بے جان سے نکال لاتا ہے اور وه بے جان کو
جاندار سے نکالنے والا ہے اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔
دانے اگانے كا ذريعه بننے سے يقينا كاشتكار كو
قدر كي نگاه سے ديكھا جاتا هے۔
ٹھيك اسي طرح سب سے پهلے انسان كو الله سبحانه
نے اپنے هاتھوں سے بنايا۔ پھر پاني كے قطرے سے اس كي نسل كو جاري فرمايا۔ ﴿الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ * ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ
مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ * ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ
مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ
لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ﴾ (سورة السجدة: 7-9) جس نے
نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔ پھر اس کی نسل
ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی
نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو۔
الله سبحانه چوں كه خالق حقيقي هے۔ اور بندوں پر
ان گنت اس كے احسانات هيں۔ اس لئے عبادتيں صرف اسي كي كي جائيں گي۔ پر جن كے ذريعه
اس دنيا ميں آنے كا شرف ملا۔ اس كے لئے انھيں
پل پل بڑي مشقتيں جھيلني پڑيں۔ اپنے شب وروز كے عيش وآرام اور چين وسكون كو قربان
كرنا پڑا۔ ان مهان انسانوں كي كتني قدر
هوني چاهئے؟ غالبا اسي لئے الله سبحانه نے خالق حقيقي كا حق عبادت بيان كرتے هوئے
جنم دينے والوں كے حقوق ساتھ ميں ذكر كئے۔
﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا
تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (سورة الإسراء: 23) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت
نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔
اپنے بے شمار احسانات پر شكر ادا كرنے كا حكم
ديا۔ تو جنم دينے والے ماں باپ كے بهت سے احسانات پر ان كا شكر ادا كرنے كا حكم
دينا نه بھولا۔ ﴿أَنِ اشْكُرْ لِي
وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ﴾ (سورة لقمان: 14) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ
کر آنا ہے۔
ماں باپ جو عدم سے وجود كا سبب هيں۔ ماں جس كي آغوش ميں كائنات كي راحت هے۔ باپ جو
راحتوں كي كائنات اور محافظ وسائبان هے۔ ماں
جو خزينۀ طمانينت هے۔ باپ جو خزينۀ وسائل حيات هے۔ ماں اور باپ سروں كے وه تاج هيں۔ جن كي عظمت
ورفعت كو بس الله هي جانتا هے۔ كيا كوئي ايسے
مقدس چهروں پر افسردگي ديكھنا گواره كر سكتا هے؟
يقينا هرگز نهيں۔
ماں أولاد كي أيك مسكان كے لئے هنستے هنستے اپني
جان دے ديتي هے۔ باپ أيك لقمه كے لئے اپني زندگي بيچ ديتا هے۔
ماں كے سامنے سارے دكھ درد فرو هو جاتے هيں۔ باپ
نظر آتے هي سر وپا رگو ريشے ميں استغنائي و إحساس تحفظ دوڑ جاتي هے۔ ماں باپ نظر
آتے هي گلهائے رنگا رنگ ميں رنگ اور زندگي ميں جان محسوس هوتي هے۔ خوش نصيب هيں وه لوگ جن كے سامنے ماں باپ هيں۔ اورقابل رشك هيں جنھيں والدين كي خدمت كا
موقعه ملا۔
ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپني اپني صحيح ميں، اور امام بخاری
نے الادب المفرد میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے خلاف عادت منبر پر چڑھتے ہوئے تین بار آمین کہا،
اور اس کا سبب آپ ﷺ نے یوں بیان فرمایا کہ جب میں نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا,
تو جبریل علیہ السلام نے کہا برا ہو اس آدمی کا جس نے اپنے والدین کو پایا, اور ان
کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا، تو میں نے کہا آمین۔ جب دوسرے زینہ پر قدم
رکھا تو جبریل نے کہا برا ہو اس آدمی کا جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور جنت میں
داخل نہ ہو سکا، میں نے کہا آمین۔ اور جب تیسرے زینہ پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا
برا ہو اس آدمی کا جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام آئے اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے، میں
نے کہا آمین۔
اس واقعہ کو مالک بن الحویرث سے منذری اور ابن
حبان نے ، کعب بن عجرہ سے منذری اور حاکم نے اور جابر بن سمرہ سے طبرانی نے بھی
صحیح سند کے ساتھ نقل کیاہے۔مقام عبرت یہ ہے کہ بد دعاء کرنے والے افضل الملائکہ
حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، تو اس دعاء پر آمین کہنے والے افضل الخلائق محمد رسول
اللہ ﷺ ، لہذا والدين كے بر واحسان اور حقوق ميں تقصير برتنے والے متنبه ہو جائیں۔
جب هم والدين كے حقوق كي بات كرتے هيں۔ تو يه
أيك طرفه نهيں هے۔ بلكه هر مرد وعورت كو ماں اور باپ كے مرحلے سے گزرنا هے۔ الا ما شاء الله۔ آج اگر آپ
أولاد ميں هيں۔ اور آپ كو والدين كے حقوق ياد دلائے جا رهے هيں۔ تو أيك دن آپ
والدين ميں هوں گے۔ اور انھيں حقوق سے محظوظ هو رهے هوں گے۔ اگر آپ نے اپنے والدين
كے ساتھ حق تلفي كي۔ تو ياد ركھيں آپ كي أولاد آپ سے يهي كچھ سيكھ رهي هوگي۔ اور
جب آپ اس مرحلے كو پهنچيں گے۔ تو آپ كے ساتھ وهي كچھ هوگا جو آپ نے اپنے والدين كے
ساتھ كيا هوگا۔ اگر آپ نے اپنے والدين كي خدمت كي هوگي۔ تو آپ كي أولاد سے آپ كو بھي
خدمت اور حسن سلوك ملے گا۔ اور اگر آپ نے اپنے والدين كو آنسو ديئے هوں گے۔ يا گھر
سے نكالا هوگا۔ يا اولڈ هوم ميں بھيجا هو گا۔ تو آپ كو بھي وهي كچھ ملنے والا هوگا۔
اسلام ميں والدين كا مقام ومرتبه
اسلام ميں والدين كا بڑا مقام ومرتبه هے۔ كتاب
وسنت ميں ڈھيروں نصوص اس بات كي شاهد هيں۔ اگر وه
دنيا ميں بقيد حيات هيں۔ تو ان كے ساتھ حسن سلوك اور بر واحسان فرض هے۔ جب كه اگر
وه دنيا سے گزر جائيں تو بھي ان كے حقوق أولاد پر جاري رهتے هيں۔ ان كي طرف سے
صدقات وخيرات كئے جائيں۔ ان كے لئے مغفرت كي دعائيں كي جائيں۔ ان كي دوست واحباب كے
ساتھ اچھے تعلقات ركھے جائيں۔ غرضيكه زنده ومرده هر حال ميں ان كے حقوق كي پاسداري
كا حكم بتاتا هے۔ كه والدين كتنے عضيم الشأن الور عظيم المرتبة هيں۔
درج ذيل آيتوں ميں والدين كے مقام كا پته چلتا هے :
ü ﴿وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ
وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ
إِلَيَّ الْمَصِيرُ*وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بي مَا لَيْسَ لَكَ بهِ
عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبعْ
سَبيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بمَا
كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (سورة لقمان: 14-15) ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت
کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی
دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی
طرف لوٹ کر آنا ہے (14) اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں
کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں
دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا
ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں
خبردار کروں گا۔
ü أيك اور جگه باري
تعالى نے فرمايا: ﴿وَقَضَى
رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا
يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ
أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا*وَاخْفِضْ لَهُمَا
جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي
صَغِيرًا﴾ (سورة الاسراء: 23-24) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم
اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری
موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک
نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔
احاديث كے ذخيرے ميں ان گنت مرويات هيں ۔ جو
والدين كے مقام ومرتبے كو اجاگر كرتے هيں۔
ü امام بخاري رحمه
الله نے حضرت أبو ھريره رضي الله عنه سے روايت كي هے كه: (جاء رجل إلى رسول اللَّه صلّى الله عليه وسلّم، فقال يا
رَسول اللَّه: من أحقّ الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمّك، قال: ثمّ من؟ قال: أمّك،
قال: ثمّ من؟ قال: أمّك، قال: ثمّ من؟ قال: ثمّ أبوك) [صحيح بخاري حديث نمبر 5971] أيك شخص نے آ كر رسول الله ﷺ سے كها: اے الله
كے رسول! ميرے حسن سلوك كا سب سے زياده حق دار كون هے؟ آ نے فرمايا: تمهاري ماں! كها پھر كون؟ آپ ﷺ نے فرمايا :تمهاري ماں۔ كها پھر كون؟
آپ ﷺ نے فرمايا: تمهاري ماں! كها پھر
كون؟ آپ ﷺ نے فرمايا: پھر تمهارا باپ۔
ü حضرت عبد الله بن
مسعود قرضي الله عنهما سے مروي هے كه:
(سألت النبي صلّى الله عليه وسلّم: أي العمل أحبّ إلى الله؟ قال: الصلاة على
وقتها، قال: ثمّ أي؟ قال: ثمّ برّ الوالدين. قال: ثمّ أي؟ قال: الجهاد في سبيل
الله، قال: حدثني بهنّ، ولو استزدته لزادني) [صحيح بخاري حديث نمبر 527] ميں نے رسول الله ﷺ سے دريافت كيا كه الله كے
نزديك كون سا عمل سب سے زياده پسنديده هے؟
آپ ﷺ نے فرمايا: وقت پر نماز كي ادائيگي۔ ميں نے كها: پھر كون سا؟ آپ ﷺ نے فرمايا: پھر والدين كے ساتھن سلوك كرنا۔ ميں نے كها
پھر كون سا؟ آپ ﷺ نے فرمايا: الله
كے راستے ميں جهاد كرنا۔ حضرت ابن مسعود رضي الله عنهما نے كها كه: رسول الله ﷺ نے ان باتوں كي بابت مجھے بيان فرمايا۔
اور اگر ميں نے مزيد سوال كيا هوتا تو مزيد بيان فرماتے۔
ü والدين كي
نافرماني گناه كبيره ميں آتي هے۔ جيسا كه حضرت أبو بكره رضي الله عنه رسول الله ﷺ
سے نقل كرتے هيں كه آپ ﷺ نے فرمايا:
(ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ قلنا: بلى يا رسول الله، قال ثلاثاً، قَال: الإشراك
باللَّه، وعقوق الوالدين، وكان متكئاً فجلس، فقال: ألا وقول الزّور، وشهادة الزور،
ألا وقول الزّور، وشهادة الزّور، فما زال يقولها حتى قلت: لا يسكت) [صحيح بخاري حديث نمبر 5976] كيا ميں تمهيں كبيره گناهوں ميں بھي سب سے بڑے
گناه كي خبر نه دوں؟ هم نے كها: كيوں نهيں
اے الله كے رسول! اس بات كو تين بار دهرايا۔ پھر فرمايا: الله كے ساتھ كسي كو شريك ٹھهرانا۔ والدين كي
نافرماني كرنا۔ پھر ٹيك لگائے هوئے تھے اب سنبھل كر بيٹھ گئے اور فرمايا: آگاه رهو
جھوٹ بولنا اور جھوٹي گواهي دينا۔ آگاه رهو جھوٹ بولنا اور جھوٹي گواهي دينا۔ اس
كو باربار كهتے رهے۔ حتى كه مجھے لگا شايد اب آپ چپ نهيں هوں گے۔
كتاب وسنت كي ان وضاحتوں سے صاف ظاهر هو جاتا هے۔ كه والدين
كا مقام ومرتبه اسلام ميں كتنا بلند وبالا هے۔ اور والدين كي نافرماني كتنا بڑا گناه هے۔
حقوق الوالدين كي اهميت وفضيلت
والدين كے ساتھ حسن سلوك كي بڑي اهميت هے۔
1.
الله سبحانه نے والدين كے حقوق اور ان كے ساتھ
حسن سلوك كو اپني عبادت كے ساتھ اور اپنے شكر كو والدين كے شكر كے ساتھ بيان كيا هے۔
(وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا
بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) (سورة النساء: 36) اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں
باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو۔ نيز فرمايا:
(قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ
رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ
إِحْسَانًا) (سورة الأنعام: 151) آپ
کہیے کہ آؤ میں تم کو وه چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (یعنی جن کی مخالفت) کو تمہارے رب
نے تم پر حرام فرما دیا ہے، وه یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور
ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ (أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ
الْمَصِيرُ) (سورة لقمان: 14) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر،
(تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
2. والدين كے ساتھ
حسن سلوك اور ان كے حقوق كي ادائيگي افضل ترين عمل بلكه جهاد في سبيل الله پر مقدم
هے۔ حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما سے مروي هے كه: "جاء رجل إلى النّبي - صلّى الله عليه وسلّم - يستأذنه
في الجهاد، فقال: أحيٌّ والداك؟ قال: نعم، قال: ففيهما فجاهد" أيك شخص نبي ﷺ كے پاس جهاد ميں جانے كي اجازت
لينے كے لئے آيا۔ آپ ﷺ نے فرمايا: كيا تمهارے والدين زنده هيں؟ اس شخص نے كها: هاں!
آپ ﷺ نے فرمايا: تو انھيں دونوں ميں جهاد كرو۔ (بخاري ومسلم)
امام ابن حجر فرماتے هيں كه:
" اس كا مطلب يه هے كه جس طرح جنگ كے
ميدان ميں دشمن كو زير كرنے كے لئے جد وجهد كيا جاتا هے۔ اسي طرح تم اپنے والدين كے
بر واحسان اور ان كي رضامندي كے لئےجد وجهد كرو۔ كيوں كه يه جهاد في سبيل الله كے
قائم مقام هے۔ اسي لئے علماء نے كها هے كه
والدين اگر مسلمان هيں تو ان كي اجازت كے
بغير جهاد كے لئے نكلنا جائز نهيں هے۔ اس كي وجه يه هے كه والدين كے ساتھ حسن سلوك
فرض عين هے۔ جب كه جهاد في سبيل الله فرض كفايه هے۔تو اگر كسي وجه سے جهاد فرض عين
هو گيا تو هي بلا اجازت والدين جهاد كے لئے جا سكتے هيں ورنه نهيں" (ملخصا من الفتح)
3. حقوق الوالدين
افضل ترين اعمال ميں سے هے۔ جس كا مرتبه
نماز جيسي اهم ترين عبادت كے بعد هي هے۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه سے روايت هے كه
ميں نے رسول الله ﷺ سے دريافت كيا: " أيُّ العَمَلِ أفضل؟ قال: الصّلاةُ لوقتها، قال: قلتُ: ثم
أيٌّ؟ قال: ثمّ برّ الوالدين، قال: قلت: ثمّ أيٌّ؟ قال: الجهاد في سبيل الله ،
حدّثني بهنّ رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم - ولو استزدته لزادني " كون سا عمل افضل هے؟ آپ ﷺ نے فرمايا:
وقت پر نماز كي ادائيگي۔ كها ميں نے پوچھا: پھر كون سا؟ آپ ﷺ نے فرمايا: والدين كے
ساتھ حسن سلوك۔ ميں نے كها پھر كون سا؟ آپ ﷺ نے فرمايا: جهاد في سبيل الله۔ مجھے
ان باتوں كو خود رسول الله ﷺ نے بيان كيا۔ اور اگر ميں نے مزيد سوال كيا هوتا۔ تو
اور زياده بيان فرماتے۔ (رواه مسلم)
4. حقوق الوالدين رب
كے رضا كا سبب هے۔ حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما نّبي صلّى الله
عليه وسلّم سے روايت كرتے هيں كه آپ ﷺ نے فرمايا: "رضى الرّب في
رضى الوالد، وسخط الرّب في سخط الوالد" رب كي رضا مندي والد كي رضا مندي ميں هے۔ اور
رب كي ناراضگي والد كي ناراضگي ميں هے۔ (ابن
حبان وصححه الألباني في صحيح الجامع)
5. حقوق الوالدين دخول
جنت كے أسباب ميں سے هے۔ حضرت ابو درداء رضي الله عنه سے روايت هے كه ميں نے رسول
الله ﷺ كو فرماتے هوئے سنا: "الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئتَ فأضع
ذلك البابَ أو احفظه"
والد جنت كا درمياني دروازه هے۔ چاهو تو
اس دروازه كو ضائع كر لو۔ اور چاهو تو محفوظ كر لو۔ (الترمذي بسند جيد) قال: إنَّ رجلًا أتاه فقال:
إنَّ لي امرأةً، وإنَّ أمي تأمُرني بطلاقها، فقال أبو الدرداء: سمعتُ رسول الله ﷺ
يقول: ...
حضرت معاويه بن جاهمه رضي الله عنهما سے روايت
هے كه ان كے والد جاهمه نبي ﷺ كے پاس آئے اور كها: "يا رسولَ اللهِ، أردتُ أن أغزوَ وقد جئتُ أستشيرُكَ؟ فقالَ:
هل لَكَ مِن أمٍّ؟ قالَ: نعَم، قالَ: فالزَمها، فإنَّ الجنَّةَ تحتَ رِجلَيها"
اے الله كے رسول! ميں نے جهاد ميں نكلنے كا أراده كيا هے۔ اور آپ ﷺ
كے پاس مشوره طلب كرنے آيا هوں۔ تو آپ ﷺ نے
فرمايا: كيا تمهاري ماں هے؟ انھوں نے كها: هاں! آپ ﷺ نے فرمايا: ان كي خدمت ميں هي
چمٹے رهو۔ كيوں كه بلا شبه جنت ان كے دونوں
پيروں كے نيچے هے۔ (رواه النسائي وقال الألباني حسن صحيح)
6. رسول الله ﷺ نے
اس شخص پر بد دعاء فرمائي هے۔ جو والدين كے ساتھ حسن سلوك نه كرے۔ اور ان كے حقوق
كي ادائيگي ميں كوتاهي كرے۔ حضرت ابو هريرة رضي الله عنه سے روايت هے كه رسول الله
ﷺ نے فرمايا: "رَغِمَ أنْفُهُ، ثمّ رَغم أنفه، ثمّ رغم أنفه، قيل:
مَنْ يا رسول الله؟ قال: من أدرك والديه عند الكبر: أحَدَهُما، أو كليهما، ثمّ لم
يدخل الجنّة" اس شخص كي
ناك خاك آلود هو، اس شخص كي ناك خاك آلود هو، اس شخص كي ناك خاك
آلود هو، كها گيا: كون اے الله كے رسول؟ آپ ﷺ نے فرمايا: جس نے اپنے والدين كو بوڑھاپے
ميں پايا۔ ان دونوں ميں سے أيك كو يا ان دونوں كو۔ پھر بھي وه جنت ميں داخل نه هو
سكا۔ (رواه مسلم)
امام قرطبي فرماتے هيں كه اس ميں دو احتمال هو
سكتے هيں:
ايك: يه كه اس كا معنى هے هلاكت يعني الله
سبحانه اسے عذاب ميں مبتلا كريں گے۔ اور
اس كي هلاكت هوگي۔
دوسرا: اس كا معنى يه هوگا كه الله سبحانه اسے
ذليل وخوار كريں گے۔
7. والدين كے حقوق
اتنے زياده هيں۔ كه مكمل طور پر كوئي ادا نهيں كر سكتا۔ حضرت أبو هريره رضي الله عنه سے روايت هے كه
رسول الله ﷺ نے فرمايا: "لا يجزي ولدٌ والداً إلا أن يجده مملوكاً
فيشتريه فيعتقه" كوئي لڑكا اپنے والد كا حق ادا نهيں كر سكتا۔
الا يه كه وه اسے غلام حالت ميں ملے اور وه اس كو خريد كر آزاد كر دے۔ (مسلم)
عن أبي بردة أنّه شهد ابن عمر رضي الله عنهما، ورجل
يمانيّاً يطوف بالبيت، حمل أمه وراء ظهره يقول: إنّي لها بعيرها المذلل إن أُذعرت
ركابها لم أذعر. ثمّ قال: يا ابن عمر، أتُراني جزيتها؟ قال: لا، ولا بزفرة واحدة" حضرت أبو برده رضي الله عنه سے روايت هے كه وه حضرت عبد الله بن عمر رضي
الله عنهما كے ساتھ حاضر تھے۔ اور أيك يماني شخص بيت الله كا طواف كر رها تھا۔
جو اپني ماں كو اپني پيٹھ پر اٹھائے هوا تھا۔ اور رجز ميں كهه رها تھا: ميں هي اس كا مطيع اونٹ هوں۔
اونٹ كے سوار گھبراتے هيں۔ مگر ميں اپني سوار كو
خوفزده نهيں كروں گا۔ پھر كها: اے ابن عمر! آپ كي رائے ميں كيا ميں نے
ميري والده كا حق ادا كر ديا؟ حضرت ابن عمر رضي الله عنهما نے فرمايا:
هرگز نهيں! أيك رتي برابر بھي نهيں۔ (صحيح الأدب المفرد للألباني)
8.
برّ الوالدين الله سبحانه وتعالى كے اقرب ترين
اعمال ميں سے هے۔ "إنّي خطبت امرأة فأبت أن تنْكِحَني، وخطبها
غيري فأحبّت أن تَنكِحَهُ، فَغِرْتُ عليها فقتلتُها، فهل لي من توبةٍ؟ قال: أُمُّك
حيَّةٌ؟ قال: لا، قال: تبْ إلى الله عزّ وجلّ، وتقرَّب إليه ما استطعت. قال عطاء
بن يسار: فذهبت فسألت ابن عباس: لِمَ سألتَهُ عن حياة أمّه؟ فقال: إنّي لا أعلم
عملاً أقرب إلى الله تعالى من بِرِّ الوالدة" حضرت
عبد الله بن عباس رضي الله عنهما كے پاس أيك آدمي
آيا اور كها: ميں نے أيك عورت كو نكاح كے لئے پيغام بھيجا۔ تو اس نے مجھ سے
نكاح كرنے سے انكار كر ديا۔ اور ميرے سوا نے جب پيغام بھيجا تو وه اس سے نكاح كے
لئے راضي هو گئي۔ جس سے مجھے غيرت هوئي اور ميں نے اس كا قتل كر ديا۔ تو كيا ميرے
توبه كي كوئي گنجائش هے؟ تو حضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما نے اس
سے كها كه: كيا تمهاري ماں زنده هے؟ اس نے كها: نهيں! حضرت عبد الله بن عباس رضي
الله عنهما نے فرمايا: الله سے توبه كرو۔ اور الله سے قربت كے لئے جو كچھ تم سے هو
سكے وه كرو۔ عطاء بن يسار نے كها كه ميں گيا
اور حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے سوال كيا كه: آپ نے اس كي ماں كے زنده هونے كا كيوں پوچھا؟ تو فرمايا: ماں كے ساتھ حسن سلوك سے زياده كوئي
عمل اتنا زياده الله سبحانه سے قريب كرنے والا ميں نهيں جانتا۔ (صحيح الأدب المفرد للألباني)
9. والدين كے ساتھ
نرم كلامي دخول جنت كے أسباب ميں سے هے۔ أيك آدمي نے گناه كيا۔ اور حضرت عبد الله ابن عمر رضي الله عنهما سے آ كر
اس كا ذكر كيا۔ تو حضرت ابن عمر رضي الله عنهما نے فرمايا: يه كبيره گناهوں ميں سے
نهيں هے۔ كبيره گناه تو نو هيں: الله كے ساتھ كسي كو شريك كرنا۔ كسي نفس كو ناحق
قتل كرنا۔ ميدان جهاد سے فرار اختيار كرنا۔ پاك دامن عورت پر تهمت لگانا۔ سود كھانا۔ يتيم كا مال كھانا۔ مسجد كے اندر الحاد كي باتيں كرنا۔ كسي كا
سخريه كرنا اور مذاق اڑانا۔ اور نافرماني كركے والدين كو رلانا۔ ميں نے كها: هاں الله كي قسم! انھوں نے كها:
كيا تمهارے والد زنده هيں؟ ميں نے كها: ميرے پاس ميري ماں هے۔ فرمايا: قسم الله كي
اگر تم نے اس كے لئے بات چيت ميں۔ اور كھانا كھلايا۔ تو ضرور جنت ميں داخل هوگے۔ جب تك كبائر سے پرهيز هوتي رهے گي۔ (صحيح الأدب المفرد للألباني)
والدين كے ساتھ حسن سلوك كي فرضيت
والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا فرض عين هے۔ (وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا
إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) (سورة الإسراء: 23) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت
نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔
اس اعتبار سے بذات خود يه
أيك عبادت هے۔ كيوں كه والدين كے ساتھ حسن
سلوك كرنے سے الله سبحانه راضي هوتا هے۔ اور اجر وثواب عطا كرتا هے۔ اور جس چيز سے الله راضي هو جائے اور ثواب عطا
كرے اسے هي عبادت كهتے هيں۔ تو شب وروز
والدين كے ساتھ بر واحسان اور حسن سلوك كرنے والا دن رات اس عبادت كے اندر هي هوتا
هے۔
والدين اگر كسي مباح چيز كا حكم ديں تو وه فرض
اور واجب بن جاتا هے۔ جيسے أيك گلاس پاني هے۔ اس كا پينا صرف مباح هے۔ نه پيئں تو كوئي حرج نهيں هے۔
پر اگر والدين اسے پينے كا حكم ديں تو اب اس كا پينا فرض هو گيا۔ نه پينے سے فرض كے
تارك اور گنه گار هوں گے۔ الله كے نزديك
غليظ هي سهي پر طلاق حلال هے۔ اگر والدين غير معصيت ميں طلاق كا حكم ديں تو أولاد پر
طلاق دينا فرض هو جاتا هے۔ الا يه كه
والدين سے ان كا طلاق كا حكم واپس لے لينے
پر انھيں راضي كر ليں۔ جيسا كه حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما كي حديث سے
واضح هو جاتا هے۔ جس ميں هے كه حضرت ابن عمر كو ان كے والد نے طلاق دينے كا حكم
ديا تھا۔
البته
اگر وه معصيت كا حكم ديں تو ان كي اطاعت نهيں كي جائے گي۔ ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا
لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي
الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ
مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (سورة لقمان: ١٥) اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں
کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں
دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا
ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں
خبردار کروں گا۔
والدين اگر فاسق وفاجر هيں تو بھي ان كے حقوق
ادا كرنا فرض هے۔ يهي شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله كا اختيار كرده هے۔ (ديكھئے
الاختيارات ص 114)
حتى كه والدين اگر كفار ومشركين ميں سے هيں۔ تو
بھي ان كے ساتھ بر واحسان اور حسن سلوك روا ركھا جائے گا۔ اور حلم وبردباري اور
نرمي كے ساتھ انھيں دين كي دعوت دي جائے گي۔
الله كي اطاعت اور والدين كي اطاعت ميں فرق
الله سبحانه كي اطاعت ميں يه هے كه جب تك اس كا
حكم نه هو تب تك نه كيا جائے۔ اور جب الله كا حكم آ جائے تو پھر نبي ﷺ كے سكھائے
طريقے كے مطابق اس كو عمل ميں لايا جائے۔ فرشتوں كي يهي صفت هے۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا
أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا
مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ
اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (سورة
التحريم: ٦) اے ایمان والو!
تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور
پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی
نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
رب كے حكم كے بغير هرگز نهيں كرتے۔ اور جب حكم
هوتا هے تو حكم عدولي هرگز نهيں كرتے۔ اور وهي كرتے هيں جس كا حكم ديا گيا هے۔ نه
كم كرتے هيں نه زياده۔ رب كے ساتھ يهي
معامله انسانوں سے بھي مطلوب هے۔ كيوں كه رب كا حكم همارے لئے دليل هے۔ اور حكم
نه هو تو دليل نهيں۔ اور دليل كے بغير كوئي ديني كام جائز نهيں۔ بلكه بلا حكم
رباني كوئي كام ثواب سمجھ كر انجام دينا اپني من مانيوں كو دين بنا لينا هے۔ اور
يه أيك ايسا جرم هے جسے دين سازي كها جاتا هے۔ اور دين سازي محض الله كے هاتھوں ميں خاص اسي كي ملكيت اور اتھارٹي هے۔ اس كي اجازت كسي فرشتے يا نبي رسول تك كو نهيں
هے۔ ﴿تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ
تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ
الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ سورة الحاقة: 43-47) (یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا۔ تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے واﻻ نہ ہوتا۔
مگر والدين كي اطاعت در اصل ان كے ساتھ بر
واحسان اور حسن سلوك هے۔ لهذا ان كے حكم كے بغير بولنے سے پهلے ان كي ضرورتيں پوري
كي جائيں۔ جب لگے كه انھيں پياس لگي هو گي۔
تو ان كے بولنے سے پهلے انھيں پاني پيش كيا جائے۔
اگر والدين پاني مانگ ليں۔ اور وهاں عمده قسم كي شربت هو جو ان كے لئے پاني
سے زياده مفيد هو۔ تو انھيں شربت پيش كيا جائے۔
مگر الله كے حكم كو كسي ميں تبديل كرنے كي اتھارٹي نهيں هے۔ خواه پوري دنيا كو وه حكم اچھا لگے يا نه لگے۔ اور دوسرا كتنا بھي مفيد اور اچھا كيوں نه
لگے۔
والدين كے حقوق
والدين كے حقوق بے شمار هيں۔ نصوص كو جمع كر كے
اختصار كيا جائے تو درج ذيل نكات ميں بيان كيا جا سكتا هے:
ü والدين كے ساتھ
حسن سلوك كرنا۔ اور اس كي بڑي اهميت هے۔
اسي وجه سے الله سبحانه نے اپني عبادت كا حكم اور شرك سے اجتناب كے ساتھ هي والدين
كے ساتھن سلوك كرنے كا حكم ديا۔ انھيں اف
تك كهنے سے روكا۔
ü والدين كي تكريم
وتعظيم اور ان كا احترام كرنا۔ انھيں مادي ومعنوي اعتبار سے اپنے سے بلند وبالا
مقام دينا۔ ان كے فضائل ومناقب كو اعتراف كرنا۔ ان پر ناز كرنا۔
ü والدين كي خدمت
كرنا ان كي هر ممكن مادى ومعنوي رعايت كرنا۔ بالخصوص بوڑھاپے كي حالت ميں۔ كيوں كه اسي حالت
ميں والدين اپني أولاد كي خدمت ورعايت كے زياده محتاج هوتے هيں۔
ü والدين كے لئے
الله سے نيك توفيق كي دعاء كرنا۔ اور اگر دنيا سے گزر گئے هوں۔ تو ان كي مغفرت
اور دخول جنت كے لئے الله سبحانه سے دعاء كرنا۔
ü والدين كے لئے
رحم وكرم اور لطافت وظرافت كا معامله ركھنا۔
گفتار وكردار اور تعامل سے هميشه ان كے لئے نرمي اور بردباري سے پيش آنا۔
والدين كے ساتھ ان كي زندگي ميں تعامل كے آداب
گزشته مباحث ميں يه بات گزر چكي هے۔ كه والدين
كا مقام ومرتبه كيا هے؟ ان كے احسانات كتنے عظيم هيں۔ ان كے حقوق كيا هيں۔ ان كے
ساتھ بر واحسان كي كتني اهميت هے۔ (اختصار
ميں حقوق كا اعاده)
بطور نمونه اب هم كچھ آداب كا ذكر كريں گے۔ جو
والدين كے ساتھ زندگي گزارتے هوئے تعامل ميں برتنا چاهئے۔ باقي أمور كو انھيں پر
قياس كر لينا چاهئے۔ يهي ان كے ساتھ بر واحسان كا تقاضه هے۔
1.
والدين كے حكم كي تعميل كرنا اور ان كي حكم
عدولي سے گريز كرنا۔ اگر ان كا حكم الله اور رسول ﷺ كي كسي معصيت سے منسلك نه هو۔
تو ان كي اطاعت كو لوگوں ميں سب سے مقدم
ركھنا چاهئے۔ حتى كه اگر كسي معقول سبب كے
ساتھ غير معصيت ميں بيوي كو طلاق دينے كا حكم ديں۔ تو بھي ان كي اطاعت كي جائے گي۔ جيسا كه حضرت
عمر بن الخطاب رضي الله عنه نے اپنےبيٹے كو طلاق دينے كا حكم ديا تھا۔
البته عورت كے لئے اپنے شوهر كي اطاعت اس كے
والدين كي اطاعت پر مقدم هے۔ اس كا مفصل ذكر مياں بيوي كے حقوق ميں ان شاء
الله آئے گا۔
2.
والدين كے ساتھ بر واحسان كرنا۔ قول وعمل اور گفتار
وكردار غرضيكه هر اعتبار سے ان كے ساتھ حسن سلوك روا ركھنا۔
3. عاجزي تواضع تذلل
اور محبت كا بازو ان پر پست ركھنا۔ خوشي وغمي رطب ويابس درد وغم رنج والم هر حال ميں ان كے لئے سائبان بننا اور غموں كو
ان كے قريب پھٹكنے نه دينا۔ اور اس كے لئے همه وقت كوشاں رهنا۔
4. والدين كو ڈانٹنے
سے قطعا پرهيز كرنا۔ هميشه نرم گفتاري اور
لطافت وظرافت كے ساتھ ان كو مخاطب كرنا۔ انھيں پھٹكارنے يا ان پر آواز بلند كرنے
جيسے مخالفات شرعيه سے ڈرتے رهنا۔
5.
والدين كي بات كو بغور سننا۔ قطع كلامي نه كرنا۔ انھيں كم فهم، جهل يا كا طعنه نه دينا۔ ان كي
بات كو جھٹلانے يا اسے رد كرنے سے اجتناب كرنا۔
6.
والدين كے حكم دينے پر خوش هونا۔ ان كے حكم پر
كوفت محسوس كرنے يا بيزاري كے اظهار سے احتراز كرنا۔ منه بسورنے اف كرنے يا منه پر
جواب دے دينے سے بچنا۔
7. والدين كے ساتھ
خنده پيشاني اور بشاشت طبع كے ساتھ ملنا۔ منه
بنانےچهره كے ملامح يا آنكھ وغيره كے اشارےسے ان كي ملاقات كو نا خوش گوار بنانے سے
پرهيز كرنا۔
8.
والدين كے ساتھ محبت ومودت كا اظهار كرنا۔ سلام
ميں پهل كرنا۔ ان كے هاتھوں اور سر كا بوسه دينا۔ انھيں اچھي طرح پر سكون بيٹھانے
كا اهتمام كرنا۔ ان سے پهلے كھانا شروع نه كرنا۔ عام حالات ميں ان كے پيچھے چلنا۔
اور اگر كوئي خوف يا تاريكي وغيره هو تو ان كے آگے چلنا۔
9.
والدين كے سامنے ادب واحترام كے ساتھ بيٹھنا۔ كسي بھي اعتبار سے انھيں اپني توهين كا إحساس هو
ايسا هرگز نه بيٹھنا۔ جيسے ان كي طرف پاؤںپھيلا
كر بيٹھنا۔ يا ان كے سامنےشور شرابه اور قهقهه لگانا۔ ان كي موجودگي ميں غير مهذب طريقے سے ليٹنا۔ ان كے سامنے كپڑے اتار دينا۔ يا ان كے مشاهده
ميں كوئي منكر كام كرنا وغيره۔
10. والدين پر احسان
جتانے سے بچنا۔ كيوں كه احسان جتانے سے ساري پيش كي گئي اچھائياں اور خدمتيں ضائع
هو جاتي هيں۔ بذات خود احسان جتانا أيك بري خصلت اور حبط اعمال كا سبب هے۔ اور جب
يه والدين كے ساتھ هو تو اس كي شناعت مزيد
بڑھ جاتي هے۔
11.
والدين ميں سے بھي ماں كو بر واحسان ميں مقدم
ركھنا۔ اس كي وجه ظاهر
هے كه ماں نے كئي مراحل ميں أولاد كے لئے بے پناه مشقتيں جھيلي هيں۔ مهينوں حمل كے دوران كي بے چيني وبے قراري۔
وقت ولادت كي جانكاه تكليف۔ بعد ازاں رضاعت وحضانت كے أيام اور ان دنوں ديكھ بھال
اور صفائي وغيره ميں اپني راحتوں كو قربان كر دينا۔ يهي وجه هے كه الله سبحانه نے جنت ان كے قدموں
ميں ركھي هے۔ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ
بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ
كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ
سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ
عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي
فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ
الْمُسْلِمِينَ﴾ سورة الأحقاف: 15 اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف
برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا
ہے۔ یہاں تک کہ جب وه پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے
پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام
کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اوﻻد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول
الله ﷺ كے پاس أيك شخص آيا اور عرض كيا: "مَن أَحَقُّ الناسِ بحُسنِ صحابتي؟ قال:
أمُّك، قال: ثمّ من؟ قال: ثمّ أمُّكَ، قال: ثمّ من؟ قال: ثمّ أمُّكَ، قال: ثمّ من؟
قال: ثمّ أبوك) رواه مسلم. كه ميرے حسن سلوك كا سب سے زياده حق دار كون هے؟ آپ ﷺ نے فرمايا: تمهاري ماں۔
اس نے كها: پھر كون؟ آپ ﷺ نے فرمايا:
تمهاري ماں۔ اس نے كها: پھر كون؟ آپ ﷺ نے فرمايا: آپ ﷺ نے فرمايا: تمهاري
ماں۔ اس نے كها: پھر كون؟ آپ ﷺ نے فرمايا: تمهارا باپ۔
12. والدين كو منزعج
كرنے ذهني طور پر پريشان كرنےان كے آرام ميں خلل ڈالنے وغيره سے حتى الإمكان پرهيز
كرنا۔ خواه وه سو رهے هوں يا جاگ رهے هوں۔ مثلا شور وشغب اور هنگامه آرائي كرنا۔ يا انھيں
غمگين كر دينے والي غير ضروري خبريں سنانا وغيره۔
13.
والدين كے سامنے لڑائي جھگڑا يا خانداني
اختلافات پر بحث مباحثه كرنےسے احتراز كرنا۔ اور تمام تر عائلي وخانداني معاملات
اور اختلافات كا حل ان كي نگاهوں سے دور ره كر كيا جانا۔ جب تك اس قضيه ميں ان كي ضرورت يا مشاورت كي
حاجت نه پيش آن پڑے۔
14.والدين كے بلانے پر بلا تأخير فورا لبيك كهنا چاهئے۔ خواه اپنے اعمال ميں كتنا هي مصروف كيوں نه هو۔ كيوں كه يه ادب ميں سے هے كه والدين كے آواز
دينے پر فورا دوڑا چلا آيا جائے۔ بهت سے علماء نے كها هے كه اگر كوئي نفل نماز پڑھ
رها هو۔ اور والدين ميں سے كوئي آواز ديں۔ تو نماز توڑ كر ان كي طرف لپكنا واجب هے۔
كيوں كه وه نماز نفل هے۔ اور والدين كي آواز پر فورا جواب دينا واجب هے۔ لهذا واجب
كے لئے نفل كو توڑ ديا جائے گا۔ شيخ ابن باز رحمه الله كهتے هيں كه عموما نفل نماز
كو والدين كے بلانے پر توڑ دينا مشروع هے۔ خاص كر تب جب فوري نه سننے پر ان كے
ناراض هونے كا خدشه هو۔ يا كوئي ضروري اور
اهم بات هو۔ يا جس كے لئے بلا رهے هوں اس مقصد كے فوت هو جانے كا انديشه هو۔ جيسا كه صحيح بخاري ميں جريج راهب
كا قصه هے۔
15. والدين كے مابين
آپس ميں غلط فهمياں پيدا هو جائيں تو ان كے درميان ادبي تقاضوں كي رعايت كرتے هوئے
صلح صفائي كي بھرپور كوشش كرنا۔ كيوں كه
والدين كے تعلقات نا خوش گوار هونے سے سب سے زياده نقصان أولاد كو هي اٹھانا پڑتا
هے۔ لهذا
دونوں كے نظريه ميں تقارب كي سعي كرنا أولاد كي ترجيحات ميں هونا چاهئے۔
16. والدين كے حجره
ميں داخل هونے كے لئے شرعي استئذان كي رعايت كرنا۔ ممكن هے وه ايسي حالت ميں هوں كه وه نهيں چاهتے
كوئي اس حال ميں انھيں ديكھے۔
17.
والدين كو هميشه الله سبحانه كي ياد دلانا۔ اور
خوش اسلوبي سےان أمور كي تعليم دينا۔ جن كا انھيں علم نه هو۔ انتهائي لطافت وظرافت
اور شفقت وشفافيت كے ساتھ ان كو بھلائي كي رهنمائي كرنا۔ اور منكرات سے باز رهنے
كي تلقين كرنا۔ اور اگر وه اسے قبول نه
كريں تو اس پر صبر وتحمل كرنا۔
18.والدين
سے زندگي كے سارے مسائل ميں مشاورت كرنا۔ اور ان كي رائے كو ترجيح دينا۔ اور ان سے اجازت طلب كرنا۔ جيسے شادي بياه، گھر
بدلنا، سفر كے لئے نكلنا، جهاد ميں جانا وغيره۔
اگر وه اجازت ديں تو ٹھيك هے۔ ورنه اس كام كو ترك كر دے۔ بالخصوص ايسے ميں جب ان كي رائے زياده درست هو۔
نيز فهم وادراك اور ان كے ذاتي
تجربات پر محيط هو۔
19. والدين كے نيك
نامي كي بھر پور رعايت كرنا۔ شكوك وشبهات والي جگهوں اور شخصيات سے دور رهنا۔ بري صحبت يا بري جگهوں ميں جا كر اپنے كردار كو
مشكوك اور والدين كي تربيت كو داغدار نه
كرنا۔
20.
والدين كو ملامت كرنے اور انھيں ان كے كسي عمل پر
شرمنده كرنے سے بچنا۔ تربيت ميں تقصير يا تعليم نه دلا پانے يا ان جيسي وجوهات پر
انھيں عار دلانے سے بچنا۔ ان باتوں كو ياد دلانے سے بھي بچنا جن كو وه ياد
كرنا يا سننا پسند نهيں كرتے۔
21. والدين كے دلوں
ميں مختلف طريقوں سے سعادت وخوشي اور فرحت وانبساط پيدا كرنا۔ جيسے بھائي بهنوں كي اچھي طرح ديكھ بھال كرنا۔ رشته داروں كے ساتھ صله رحمي كرنا۔ مكانوں دكانوں كھيتيوں و ديگر أمور كو بحسن وخوبي انجام دينا۔ كبھي كبھار انھيں تحفے تحائف پيش كرنا۔ يا ان
جيسے أمور كا اهتمام كرنا۔ جن كے ذريعه ان
كے دلوں كو خوش كيا جا سكتا هو۔
22.
والدين كے مزاج كو سمجھنا اور اسي كے مطابق ان
كے ساتھ سلوك كرنا۔ اگر وه غصيلے مزاج كے
هوں، يا سخت زبان ان كي عادت هو، يا كوئي بھي ايسي خصلت جو انسان ميں اچھي نهيں
ماني جاتي۔ والدين كے اندر موجود هو۔ تو ان وسائل وأسباب سے دور رهنا اور ان كے مزاج
كي رعايت كرنا۔
23. والدين كے لئے ان
كي زندگي ميں كثرت سے دعاء واستغفار كرنا۔ (وَقُلْ رَبِّي ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا)
سورة الإسراء،24 ، وقوله تعالى: (رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ
دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) سورة نوح، 28
24.
والدين كے دنيا سے گزر جانے كے بعد بھي ان كے
ساتھ بر واحسان جاري ركھنا۔ ان كي جانب سے
صدقه وخيرات كرنا۔ ممكن هو تو ان كي نيابت
ميں حج وعمره وغيره ادا كرنا۔ ان كے اعزاء واقارب اور دوست واحباب كا خيال ركھنا۔
والدين كے ساتھ ان كي وفات كے بعد بر واحسان
والدين يا ان ميں سے كسي أيك كي موت كے بعد بھي
ان كے ساتھ بر واحسان جاري رهتا هے۔ اور يه الله سبحانه كا اپنے بندوں پر رحم وكرم
هے۔ كه جس نے والدين كي زندگي ميں ان كے حقوق ادا كرنے ميں كوئي كمي كي هوگي۔ اور
اسے اپني ناداني پر پشيماني وافسوس هو۔ وه كچھ حد تك ان كي وفات كے بعد بھي تلافي
كر سكتا هے۔ والدين كے ساتھ بر واحسان كے
أنواع واقسام تو ان كي وفات كے بعد بھي ظروف واحوال كے مطابق ان
گنت وبے شمار هو سكتے هيں۔ مگر يهاں چند چيزوں
كا ذكر بطور مثال كيا جا رها هے۔
o ان كے لئے كثرت سے
استغفار كرنا اور الله سبحانه سے ان كي مغفرت طلب كرنا: جيسا كه الله سبحانه نے
حضرت إبراهيم عليه الصلاة والسلام كا عمل بيان كيا هے۔ اپنے والد كے لئے ان كي دعاء تھي: (رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ
يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ) سورة إبراهيم: 41 اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر
مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے۔
o ان كے لئے كثرت سے
دعائيں كرنا: جيسا كه حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے
فرمايا: "إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقةٍ
جارية، أو علمٍ يُنتفع به، أو ولدٍ صالح يدعو له" رواه مسلم. جب انسان مر گيا تو اس كا عمل اس سے منقطع هو گيا۔ سوائے تين كے: جاري رهنے والا صدقه، يا علم
نافع، يا نيك اور صالح لڑكا جو اس كے لئے
دعاء كرے۔
o ان كے قرض كي
ادائيگي كرنا: جيسا كه حضرت ابو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے
فرمايا: "نفس المؤمن معلقة بدَينه، حتّى يقضى عنه"
رواه الترمذي. كه مومن كي روح اس كے قرض كے سبب معلق رهتي هے۔ حتى كه اس كي طرف سے ادا كر ديا جائے۔ اسي طرح حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهماسے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے
فرمايا: "يغفر للشهيد كل شيء إلا الدين" رواه
الألباني. كه شهيد كو سب كچھ معاف كر ديا جاتا هے سوائے
قرض كے۔
o ان كے مانے هوئے
نذر جو ان سے ره گئے هوں ان كو ادا كرنا: جيسے ان كے نذر مانے هوئے روزے، يا نذر
مانے هوئے حج يا عمره وغيره۔ جن ميں ان كي نيابت كي جا سكتي هو۔ جيسا كه حضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنهماسے مروي هے كه: "أنَّ امرأةً رَكِبتِ البَحرَ فنذرَت، إنِ
اللهُ تبارَكَ وتعالى أنجاها أن تَصومَ شَهْرًا، فأنجاها اللهُ عزَّ وجلَّ، فلَم
تَصُمْ حتَّى ماتَت، فجاءَتْ قَرابةٌ لَها إمَّا أُختَها أو ابنتَها إلى النَّبيِّ
- صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ - فذَكَرَت ذلِكَ لهُ، فقالَ: أرأيتَكِ لَو كانَ
علَيها دَينٌ كُنتِ تَقضينَهُ؟ قالَت: نعَم. قال: فدَينُ اللَّهِ أحقُّ أن يُقضَى،
فَاقضِ عَن أمِّكِ" متفق عليه.
أيك عورت بحري سفر ميں تھي۔ اس نے نذر مانا كه اگر الله نے اس كو حوادث سے
نجات بخشي تو أيك ماه روزه ركھے گي۔ الله
سبحانه نے اسے حوادث سے محفوظ ركھا۔ اور وه روزه ركھ پاتي اس سے پهلے هي وه مر گئي۔ تو اس كي أيك رشته دار اس كي بهن يا اس كي بيٹي نے رسول الله ﷺ كے پاس آ كر
اس كا ذكر كيا۔ آپ ﷺنے فرمايا: تمهارا كيا خيال هے اگر اس پر قرض هوتا تو كيا
تم اس كا قرض ادا كرتي؟ تو اس نے كها: هاں! آپ ﷺ نے فرمايا: تو الله كا قرض ادا كئے
جانے كا زياده مستحق هے۔ اپني ماں كے نذر
كو پورا كرو۔
o ان كے جو كفاره
ان سے ره گئے هوں ان كو ادا كرنا: جيسے قسم توڑنے كا كفاره، قتل خطا وغيره كا
كفاره۔ كيوں كه نذر كي طرح كفاره بھي الله كا واجب كرده هے۔ جب كه نذر كو ميت كي
جانب سے ادا كرنے كي روايت عام هے۔ لهذا
نذر كي دليل ميں كفاره بھي شامل هے۔ شيخ
الإسلام ابن تيميه رحمه الله بھي ميت كي جانب سے اس كے كفاره كے روزوں كو ادا كرنے
كے قائل هيں۔ مجموع فتاوى شيخ الإسلام 34/ 170
o ان كے چھوٹے هوئے
روزوں كو ادا كرنا: جيسا كه حضرت عائشه رضي الله عنها سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے
فرمايا: "من مات وعليه صيام صام عنه وليُّه" رواه
البخاري. كه جو شخص اس حال
ميں مر گيا كه اس پر چھوٹے هوئے روزے باقي
هوں۔ تو اس كي جانب سے اس كا ولي اس روزه كو ركھے گا۔ لجنه
دائمه نے اس حديث كو نذر يا كفاره دونوں كے لئے عام قرار ديا هے۔ فتاوى
اللجنة الدائمة 9/ 263
o ان كے تعلقات سے جو
صله رحمي ميں آتے هوں ان كے ساتھ صله رحمي كرنا: جيسا كه حضرت أبو برده رضي الله
عنه فرماتے هيں كه: "قدمْتُ المدينةَ، فأتاني عبدُ اللهِ بنُ
عمرَ، فقال: أتدري لم أتيتُكَ؟ قال: قلتُ: لا. قال: سمعت رسول الله - صلّى الله
عليه وسلّم - يقول: من أحبّ أن يصل أباه في قبره فليصل إخوان أبيه بعده، وإنّه كان
بين أبي عمر وبين أبيك إخاءٌ ووُدٌّ، فأحببت أن أصل ذاك" متفق عليه.
كه جب ميں مدينه آيا تو ميرے پاس حضرت عبد الله
بن عمر رضي الله عنهما آئے اور كها: كيا
تم جانتے هو ميں تمهارے پاس كيوں آيا هوں؟ ميں نے كها: نهيں! تو فرمايا: ميں نے
رسول الله ﷺ كو فرماتے هوئے سنا هے كه: جو شخص اپنے باپ كے ساتھ ان كي قبر ميں صله
رحمي كرنا چاهے۔ تو اسے اپنے باپ كي وفات كے بعد باپ كے بھائي برادران سے صله رحمي
كرني چاهئے۔
o ان كے دوست
واحباب كے ساتھ تعظيم واحترام كا معامله ركھنا۔ جيسا كه حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما رسول الله ﷺ سے روايت كرتے هيں۔
كه آپ ﷺ نے فرمايا: "إنّ
أبرَّ البر صلةُ الولدِ أهلَ وُدِّ أبيه " رواه مسلم. كه بے شك حسن سلوك ميں بيٹا كا حسن
سلوك كرنا اپنے والد كے چهيتوں اور چاهنے
والوں كے ساتھ سب سے زياده بر واحسان هے۔ اور جب ميت كي صله رحمي كي جا سكتي هے۔ ميت كے اعزاء وأصدقاء كي صله رحمي كر كے۔ تو
والدين كي وفات كے بعد وه اس كے زياده حق
دار هيں۔ كه ان كے اعزاء وأصدقاء كي صله رحمي كر كے والدين كے ساتھ صله رحمي اور
حسن سلوك كو باقي ركھا جائے۔ خود رسول الله
ﷺ حضرت خديجه رضي الله عنها كي وفات كے بعد ان كي سهيليوں كے ساتھ احسان
كيا كرتے تھے۔ جيسا كه حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتي هيں كه: "ما
غرتُ على نساءِ النبيِّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - إلا على خديجةَ. وإنّي لم
أُدركها. قالت: وكان رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - إذا ذبح الشاةَ
فيقول: أرسلوا بها إلى أصدقاءِ خديجةَ، قالت: فأغضبتُه يومًا، فقلتُ: خديجةُ؟ فقال
رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ: إنّي قد رُزِقْتُ حُبَّها" رواه مسلم. مجھے رسول الله ﷺ كي بيويوں كے ساتھ غيرت نهيں هوئي
سوائے حضرت خديجه رضي الله عنها كے۔ جب كه ميں نے ان كو بحالت حيات نهيں پايا۔ جب
جب رسول الله ﷺ بكري ذبح كرتے تو فرماتے:
خديجه كي سهيليوں كو يه بھيجوادو۔ كهتي هيں : أيك روز ميں نے آپ ﷺ كو ناراض
كر ديا۔ ميں نے كها: خديجه؟! تو آپ ﷺ نے
فرمايا: مجھے اس كي محبت عطا كي گئي هے۔
o ان كي جانب سے
صدقه وخيرات كرنا۔ جيسا كه حضرت سعد بن عباده رضي الله عنه نے جب ان كي والده
كي موت هو گئي۔ تو رسول الله ﷺ كے پاس آئے
اور كها: "يا رسولَ اللهِ، إنَّ
أمي تُوفيتْ وأنا غائبٌ عنها، أينفعها شيٌء إن تصدَّقتُ بهِ عنها؟ قال: نعم. قال:
فإني أُشْهِدُكَ أنَّ حائطي المِخْرَافَ صَدَقَةٌ عليها" رواه البخاري. كه اے الله كے رسول ﷺ! ميں غائب تھا اس حال ميں ميري ماں كي موت هو گئي۔ كيا كوئي چيز انھيں فائده پهنچائے گي اگر ميں ان كي جانب سے اسے صدقه كر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمايا: هاں! كها: تو ميں آپ ﷺ كو گواه بناتا هو ں۔ كه ميرا
مخراف نامي كھجور كا باغ ان كي جانب سے صدقه هے۔